• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’فلسفہ جمہوریت اور جدید معاشرے میں اس کا جمہوری نظام میں ڈھلنا‘‘ انسانی زندگی کے طویل ترین تہذیبی ارتقاء سے ثابت ہونے والی وہ آشکار حقیقت ہے جو ثابت کر چکی اور کرتی رہے گی کہ ’’ہم سب انسان(بشکل خاندان، قبیلہ، برادری، کمیونیٹیزاور شہری زندگی و ریاست) مل جل کر جتنے بینی فشری ایک دوسرے کی باہمی خدمات کے ہیں، اتنے الگ تھلگ رہ کر فقط اپنی انفرادی زندگی کے نہیں ہو سکتے‘‘بلکہ یہ تو مسلسل احساس عدم تحفظ اور خطرات کا باعث ہوتی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانی نسل کو جاری و ساری رکھنے اور بڑھانے کے لئے معاشرے کے سب سے بنیادی یونٹ خاندان میں بچوں کے تحفظ ، نگہداشت اور نشو ونما کو یقینی بنانے کے لئے ماں باپ میں محبت اور ذمے داری کا قدرتی جذبہ ان کی شخصیت کا لازمہ بنا دیا، اسی طرح انسانی معاشرے کے باشعور اور ذمے دار شہری، انسانی معاشرے کے استحکام اور اسے انسانیت کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لئے اسے منظم کرتے گئے، جس کے لئے انہوں نے سربراہی ، سرداری، حکمرانی، اقتدار و حکومت و ریاست کے اصول اور ضابطے وضع کئے۔ وگرنہ تو انسان اپنی فطرت میں انفرادی اور گروہی حیثیت میں بلا کا خود غرض واقع ہوا ہے۔
انسانی تہذیبی ارتقا اور بحیثیت مجموعی عالمی معاشرے کے ذمے داران نے انسانی معاشرے کے تحفظ اور فلاح وجلا کے لئے ریاستی نظام حکومت و سیاست کے لئے سعی کرتے ہوئے جو نظام ہائے حکومت وضع کئے، بلاشبہ جمہوریت اس میں سب سے بہترین قرار پایا۔جمہوریت کا سیدھا سادا فلسفہ ہے کہ نظام معاشرہ پر کسی طاقتور فرد، خاندان ، قبیلے ، برادری، طبقے، علاقے کے کنٹرول کی اجارہ داری کو ختم کر کے اس اقتدار و اختیار کو عوام الناس کی سطح تک کسی متفقہ عمرانی معاہدے کے تحت بانٹ دیا جائے۔ جمہوریت میں اس متفقہ عمرانی معاہدہ کی عملی شکل کسی ریاست میں اس کی قوم کا متفقہ آئین ہے جو عوام الناس کو تحفظ، ان کی فلاح مسلسل، اقتدار و اختیار حاصل کرنے کے یکساں مواقع، مقامی سے ریاستی سطح تک انتظامی اختیارات کی تقسیم، سماجی انصاف ، حاکموں کی دیانت، صداقت ان کا احتساب اور ان کی ذمہ داری کے حوالے سے جوابدہی کو یقینی بناتا ہے۔ گویابقول ابراہم لنکن، ’’خلق خدا کا راج، خلق کے لئے اور خلق خدا ہی کے ذریعے‘‘ ۔ مزید حاکم کے منہ پر کلمہ حق کہنے اور اظہار رائے ومشاورت کی آزادی، آج کی جمہوریت کے یہ سارے لازمے (Essentials) مدینے میں پہلی ریاست کے قیام سے خلفائے راشدین کے ادوار میں ریاستی نظام کا حصہ بن گئے تھے، جس میں حکمراں عدل و انصاف، احتساب اور عوام و حیوان کی خدمت کابھی پیکر بن گئے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کا بنیادی حقوق کا چارٹر جمہوریت کا جدید فلسفہ نبی کریم ؐکے حجۃ الوداع سے ہی انسپائر ہے۔ جدید دور میں دنیائے اسلام کے بڑے بڑے سکالرز نے بھی جمہوریت کے ہی بہترین ریاستی نظام ہونے کی تائید کی۔ آج سکینڈے نیوین ممالک (شمالی یورپ) کینیڈا اور مغربی یورپ کے ممالک (ایٹ لارج) اسی فلسفے کے پیروکار اور خلق خدا کے لئے باعث امن و سکون وراحت ہیں۔ جبکہ امریکہ سرمایہ کاروں کے پالیسی و فیصلہ سازی پر گہرے اثرات کے باعث فلاحی مملکت نہیں بن پایا اور بھارت بلا مداخلت آئینی عمل کے باوجود ذات پات کے بنیادی عقیدے کے باعث جمہوری سیکولر مملکت بننے کے بجائے بنیاد پرست ریاست (بذریعہ عام انتخاب) بن گیا اور بن کر کمزور طبقات کے لئے غیر محفوظ ریاست بن گیا۔
دنیائے اسلام کا المیہ یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد Decolonizationکا عمل تیز تر ہونے پر بھی فقط پاکستان نے ہی خود کو اسلامی جمہوری مملکت قرار دیا وہ بھی بے آئین ہوتے ہوئے۔ تاہم نفاذ سے محروم ہونے والا 1956کا آئین بنا تو پاکستان اسلامی جمہوریہ قرار پایا۔ لیکن پہلا عشرہ تو آئین سے محرومی میں گزارا اور دوسرے کا آغاز مارشل لا کے نفاذ سے ہوا۔ یہ اپنی گھڑی جمہوریت اور ترقی کو ریورس کرتا ہوا ایک اور مارشل لا کے نفاذ کے ساتھ ختم ہوا تو ملک ہی ٹوٹ گیا۔
آج پاکستان میں جمہوری نظام کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ہم قیام پاکستان کے بنیادی مقصد اور قائداعظم اور نومولود پاکستانی قوم کے عزم کے باوجود 1973تک پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے لئے ناصر ف یہ کہ کوئی متفقہ آئین بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے بلکہ پہلا دستور(موجودہ )بنایاتو پہلا سول دور( جس میں یہ آئین بنا )خود ہی بنائے متفقہ نافذ ہونے والے آئین کی دھجیاں اڑاتا انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر جمہوری تحریک کے باوجود ایک اور مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ختم ہوا۔ پہلا مارشل لاءاپنے اختتام سےپہلے ملک کو دو عوامی لیڈر (اپنے ہی کئے پر) دے گیا تھا جو شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ 11سالہ تیسرا مارشل لاء اپنی گھڑی جمہوریت کے ساتھ ختم ہوا تو اس کی کوکھ سے پنجاب سے عوامی بنتی ہوئی یابناتی ہوئی پنجاب میں موجود میاں نواز شریف کی مقبول لیڈر شپ ایک نئی عوامی قیادت بنی۔ محترمہ بے نظیر کو جبری یا خود اختیاری جلا وطنی کے بعد عوامی لیڈر شپ بذریعہ وراثت مل گئی۔
ہر دو پاپولر سیاسی قیادتوں کے ادوار (99-1988) پر ناقد فقیر کا دعویٰ ہے کہ بیسیوں خلاف آئین اقدامات سے انہوں نے اپنی اپنی جمہوریت گھڑ کر ذلت آمیز ہارس ٹریڈنگ،کنبہ پروری، تھانہ کچہری کلچر، مقامی حکومتوں کے نظام کی عملاًاور مکمل خلاف آئین تنسیخ ، قومی خزانے کے بے حد و حساب اجاڑ، اہلیت کو ٹھکانے لگاتے ہوئے نا اہلیت کے تسلط سے قومی اداروں کی تباہی اور پارلیمان اور عدلیہ جیسے ریاستی اداروں کو جس شرمناک رنگ میں رنگا، اس نے پاکستان میں جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ۔
اور دوتہائی والی نواز حکومت پھر ایک انوکھے مارشل لا پر ختم ہوئی جس میں جرنیلی صدر دعویٰ کرتے رہے کہ وہ وردی نہیں اتار سکتے، کیونکہ یہ ان کی وردی نہیں کھال ہے۔
رسوائے زمانہ این آر او شاندار ہفتوں میں ملک گیر وکلا کی تحریک کے نتیجے میں پھر دو جمہوری ادوار بحال ہوئے ہر دو پاپولر قیادتوں کے دوسول ادوار شروع ہوئے تو پھر آئین کا حلیہ درست کرنے کے باوجود غیر آئینی طرز کی دھما چوکڑی والی حکومتوں کے ذریعے آئین و قانون کی بے تحاشہ خلاف ورزی ہوئی اور کرپشن اتنی جتنی ہو سکتی تھی صرف اور صرف کفارے کا عشرہ بدترین حکمرانی میں ہی چلتا رہا۔
اب پانامہ لیکس کے بعد ملک خود بخود ارتقائی کیفیت میں آ گیا۔ افواج کی آئین وقانون کی بالادستی کی کمیٹمنٹ کے ساتھ عدلیہ کے آئین و قانون پر ارتکاز کے ساتھ ، تازہ دم اپوزیشن کے شدید دبائو سے احتسابی عمل شروع ہونے اور میڈیا کی بڑھتی بے نقابی کی کمال صلاحیت کے ساتھ جمہوری عمل بمطابق آئین جاری ہے، احتسابی عمل غیر آئینی راہ اختیار نہ کرنے پر عدلیہ کے طفیل دو وزرائےاعظم کو اتارنے کا سبب بنا۔ اب احتسابی عمل ہے اور اس کے خلاف اسٹیٹس کو کی مزاحمت۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین