• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) کے لئے خطرے کی گھنٹی

قوم نے سینیٹ کے الیکشن دیکھے جس میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا البتہ قوم کے چنے ہوئے نمائندگان ہی سینیٹ میں اپنے اپنے نمائندے چنتے ہیں ۔تاکہ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں ان کی پارٹی سینیٹ میں نمائندگی کرسکے ۔برس ہا برس سے ایسا ہی ہوتا رہا ہے ۔پارٹی کے عہدیداران اپنی ہی پارٹی کے امیدوار کو چنتے ہیں ۔مگر گزشتہ سال سے جب مسلم لیگ ن کا رویہ ،اسٹیبلشمنٹ سے اور عدلیہ کے ساتھ بہت جارحانہ دیکھنے میں آرہا تھا ۔خصوصاً پانامہ لیکس کی روشنی میں جب عدلیہ نے ان کے معاملات نیب کے حوالے کئے تو وہ صادق اور امین نہیں پائے گئے۔ تو ان کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا ۔جو ان کی صاحبزادی مریم نواز اور ن کے کارکنوںپر بہت گراں گزراتو سب نے مل کر عدلیہ کے خلاف محاذ بنالیا اگرچہ ابھی تک ان ن لیگیوں میں صرف نہال ہاشمی ،دانیال عزیز اور عابد شیر علی شکنجے میں آئے ہیں ۔ڈان لیکس کے پس پردہ اگر چہ مریم نوازصاحبہ تھیںمگر پرویز رشید کو پھنسواکر وزارت سے ہٹادیا گیا ،لاکھ وزیر داخلہ چوہدری نثار صاحب اس واقعے سے پردہ ہٹاکر فوج کوکلیئر کرنا چاہتے تھے مگر شہباز شریف صاحب کی دوستی کام آگئی اور معاملہ بظاہر ٹھنڈا ہوگیا مگر حقیقت تو سب پر عیاں ہوچکی تھی ۔غالباًن لیگ کے نورتنوںکا مزاج ہمیشہ جارحانہ ہی رہا ،جس کی وجہ سے وہ جلاوطن بھی ہوئے پھر نااہل بھی ہوئے مگر انہوں نے وقت سے سبق نہیں سیکھا اور مزید شدت پکڑلی۔ جبکہ ابھی پانامہ لیکس میں نیب کا فیصلہ آنے والا ہے ۔اور نہال ہاشمی دوبارہ پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔
اب میں آتاہوں تیسری اچانک تبدیلی بلوچستان حکومت میں راتوں رات دیکھنے میں آئی ،پہلے تو مسلم لیگ ن کے خلاف بغاوت ہوئی اور وزیراعلیٰ اقلیتی پارٹی سے لائے گئے ۔جس میں اندرونی طور پر خود مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعتوں نے بھی مسلم لیگ ق سے ناطہ جوڑلیا اور ان کا وزیراعلیٰ قدوس بزنجو صاحب کو چن کر حیر ت میں ڈال دیا گیا ۔گویا یہ خطرے کی پہلی گھنٹی تھی جس سے میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم حیران و پریشان تو ہوئی مگر اس کی پروا نہیں کی ۔جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کھل کر کہہ چکے تھے کہ اب مسلم لیگ ن سینیٹ میں اپنا امیدوار کامیاب نہیں کرواسکے گی ۔گویا اُن کا اشارہ بلوچستان کے سینیٹروں کی خرید وفروخت کا بازار لگانے کی طرف تھا پھر بھی مسلم لیگ ن والے بڑے مطمئن تھے کہ اکیلا پنجاب ان کے لئے کافی ہے ۔اور اُن کے اتحادی ملاکر اُن کو کوئی خطرہ نہیں وہ سمجھتے تھے کہ پی ٹی آئی کے عمران خان نہ ان کے امیدوار کی حمایت کرینگے نہ پی پی پی کے امیدوار کو ووٹ دلوائیں گے۔گویا ڈرنے کی کوئی بات ہی نہیں ہے وہ بھول گئے تھے کہ سیاست اور کرکٹ میں آخر ی بات کوئی نہیں ہوتی ۔کبھی کبھی 2جمع 2پانچ بھی بن جاتے ہیں ۔وہی ہوا جب منڈی کھلی اور آوازیں کروڑوں روپوں کی آنے لگیں تو ہر طرف ہل چل مچ گئی۔منڈی جن کے لئے لگی تھی وہ دھڑا دھڑ کودکودکر آنے لگے ۔سندھ سے ایم کیو ایم کا توڑ جوڑ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا تو سب نے آخری مرتبہ ہاتھ دھونے میں ہی عافیت جانی اور وعدے وعید کہیں اور ہوئے،ووٹ کہیںاورپڑے۔ اتحادی جماعتوں نے بھی "اوپر "والوں سے ڈر کر مسلم لیگ ن سے بے وفائی کی اور بہانے بناکر اپنا کام کرگئے اور زرداری صاحب کے نام سے اٹھنے والاپردہ بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ اور سندھ سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ان کے لائے ہوئے امیدوار کو کامیاب کراکر ہی لوٹا۔اب مسلم لیگ ن کے ہوش اُڑ گئے ان کے منصوبوں پر پانی پھر گیا ۔خصوصاًان کے تمام غصے کی زد میں عمران خان ہی آئے جبکہ بیج تو مولانا فضل الرحمن صاحب بھی نے بویا تھا ۔عمران خان نے غیر ارادی طور پر عجلت میں اپنا ارادہ بدل ڈالا ۔وہ ایسے ہی فیصلے کرتے ہیں جیسے مرحوم اصغر خان تحریک استقلال والے کرتے تھے ۔لاکھ وہ صفائیاں اب پیش کرتے رہیں غلطی تو ہوگئی۔ جس کو مریم نواز اور میاں نواز شریف یہ کہہ کر اپنے آپ کو بہلا رہے ہیں کہ ہم ہار کربھی جیت گئے اور وہ جیت کر بھی ہار گئے۔ جب یہ منڈیاں لگ رہی تھیں توقوم جاننا چاہتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر تو عدلیہ سوموٹو ایکشن لے کر روک ٹوک کرتی ہے تو اتنی بڑی سنگین بے قاعدگی کو سب نے کیسے برداشت کیا اور اب یہ فروخت شدہ مال سینیٹ میں جاکر کیا گل کھلائے گا۔ اب جاکر الیکشن کمیشن کی آنکھ کھلی ہے تو وہ لوگوں کو بلابلاکر پوچھ رہا ہے کہ یہ سب کچھ کیسے اور کس نے کیا ۔
بقول شاعر!
پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
اب اگلا مرحلہ نگراں حکومت کا ہے جس کی توڑجوڑ شروع ہوچکی ہے ۔پھر الیکشن کا مرحلہ شروع ہوگا ۔اس دوران چند فیصلے ہونگے ،چند دھماکے ہونگے اُس کے لئے کوئی پیشینگوئی نہیں کی جاسکتی یہ "اوپر "والے جانتے ہیں۔جب تک نورتن میاں صاحب کے مشیر رہیں گے وہ جارحانہ مشورے دینگے تو ایک آدھ وکٹ اور گر جائیگی۔کالم ختم کرنے سے پہلے ایک لطیفہ یا د آرہا ہے کہ ایک میراثی کا لڑکا شہر سے پڑھ لکھ کر گائوں واپس آیا تو میراثی اُس کو چوہدری صاحب سے ملانے لے گیا۔کیونکہ میراثی کو چوہدری صاحب پسند کرتے تھے۔ اتفاق سے چوہدری صاحب کی لڑکی پر میراثی کے لڑکے کی نظر پڑی ۔تو گھر آکر اُس نے باپ سے کہا کہ میں چوہدری صاحب کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ باپ نے بہت منع کیا کہ بیٹا ایسا نہیں ہوسکتا ۔لڑکا اکلوتا تھا ضد کربیٹھا ،مجبوراً چوہدری صاحب کے پاس جاکر اُس کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیا ۔چوہدر ی آگ بگولہ ہوگیا جب اُس نے اصرار کیا تو چوہدر ی کے آدمیوں نے خوب مارا پیٹا اور حویلی سے باہر پھینک دیا ۔وہ لنگڑا تا ہوا اُٹھا اور کہا چوہدری صاحب میں کیا سمجھوں ۔یہی کچھ کیفیت مسلم لیگ ن کی ہورہی ہے مگر وہ سمجھنا نہیں چاہتے۔ شاید شہباز شریف ہی کوئی نئی پالیسی لائیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین