• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچرے کا ڈھیر کراچی۔۔۔سوچی سمجھی سازش تحریر:۔سیدمنہاج الرب

minhajur.rab@janggroup.com.pk

پینے کا صاف پانی ہو یا کراچی کا کچرا اعلیٰ عدلیہ ان دونوں مسئلوں کو درست کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہی ہے۔ امید ہے کہ کامیابی ہوگی۔ پینے کا صاف پانی تو ابتدا ہی سے میسرنہ تھا۔ اس طرف توجہ دینا خوش آئند ہے۔ اور یہ صرف کراچی ہی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ لیکن کراچی کو کچرے کا ڈھیربنانا یقیناً کسی سوچ اور منصوبے کے تحت تھا۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی میں خاکروب کی ایک خاص تعداد ہے جو ہر مہینے باقاعدگی سے تنخواہ وصول کرتی ہے۔ جس پر حکومت کو ایک " معقول رقم" خرچ کرنی پڑتی ہے۔ یہ خاکروب صبح کے وقت اپنی حاضری لگواتے اور اپنے حصے کی سڑکوں کی صفائی پر چلے جاتے تھے۔ ہر علاقے کا ایک ٹھیکیدار ہوتا تھا ۔ جو ان کی حاضری لیتا تھا۔ اور پھر کام تقسیم کرتا تھا۔یہ خاکروب دوپہر تک اپنا کام مکمل کرتےتھے۔ جب زیادہ اچھا نظام تھا تو یہ خاکروب صبح اور شام دو وقت جھاڑو لگاتے تھے۔ رات کو سڑکیں تک دھلتی تھیں۔(خیریہ تواب ایک خوبصورت خواب ہے) لیکن پھر کیا ہوا کہ ہر کام میں " حصہ داری" کا نظام آگیا۔ٹھیکیدار حاضری لگاتے ہوئے تنخواہ میں حصہ مانگنے لگا۔ یوں " بارگینگ" شروع ہوئی اور خاکروب اپنی تنخواہ کا چند فیصدٹھیکیدار کو دینے کے عوض اپنی ڈیوٹی کے اوقات کم کرنا شروع ہوگئے ۔ یوں انتہایہاں تک پہنچی کہ جو لوگ رضا بخوشی بڑی باقاعدگی سے اپنی تنخواہ کا حصہ ٹھیکیدار کو دیتے تھے وہ اب ڈیوٹی دینے سے " مبراقرار" دے دیئے گئے۔ کوئی بنگلے میں کام کررہا ہے، کوئی بنگلے کا چوکیداربنا ہوا ہے، کوئی ڈرائیور بنا ہوا ہے یا علاقے کا چوکیدار۔ الغرض جس کو جہاں جہاں کام ملتا گیا وہ وہاں جاتا رہا۔ حاضری کے رجسٹر پر حاضری لگتی رہی اور سرکاری تنخواہ وصول ہوتی رہی۔(اب ان ٹھیکیداروں کی آمدنی میں کون کون حصہ دار ہوگا اب خود اندازلگاسکتے ہیں) کام ہوتا ہوا نظرآرہا ہو یا نہیں اس سے کسی کو غرض نہیں۔ اسی طرح کا حال کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کا بھی ہے پہلے یہ بڑی پابندی سے کچرا کچراکنڈی سے اٹھانے آتی تھیں۔ دھیرے دھیرے ان کے آنے کے اوقات میں تبدیلی آنی شروع ہوئی اور پھر دیکھتے دیکھتے کئی کئی دنوں کے بعد یہ گاڑیاں کچرا اٹھانے آتیں۔ کچروں کے ڈھیرلگنے شروع ہوگئے اور عوام بھی غلاظت کو پسند کرنے لگے ۔ہر کوئی اپنا گھر اور اطراف صاف کرکے کونے میں کچرے کے ڈھیر لگانے لگا۔لیکن اب عدالت عالیہ نے ایک ہفتہ کا وقت دیا ہے میئر کراچی کو۔ جنہوں نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی طے کرلیا تھا کہ کرنا کچھ نہیں ہے۔ صرف اختیارات کے نہ ہونے کا شکوہ کرنا ہے۔ اس طرح گیند ہر وقت حکومت سندھ کے کوٹ میں رہے گی اور ویسے بھی پاکستانی معاشرے میں " مظلومیت " کے نمبر سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو کامیابی حاصل کرنی ہے تو اورکچھ نہیں کرنا توسب سے پہلے مظلوم بن جایئے اور مظلومیت کا اتنا پرچار کریں کہ سامنے والے کو یقین آجائے۔ لیکن کئی سالوں کے بعد یہ " ترپ کا پتہ" بھی ساتھ نہ دے سکا۔عدالت نے حکم دیا ہے کہ اختیارات کو بھی دیکھ لیا جائے گا۔ لیکن رفاہی بنیادوں پرکچرے کو ختم کیا جائے۔ سندھ حکومت کے نظام کو بھی دیکھنا ہوگا کہ آخر ان کا اس معاملے میں کتنا کردار ہے؟ نالوں کی صفائی صرف برسات آنے سے پہلے ہوتی ہے اور کچرا نالے سے نکال کر کونے پر رکھ دیا جاتا ہے اٹھایا نہیں جاتا ہے۔ایسے میں یہ " نالے کی صفائی" کہلائے گی؟ کیونکہ چند دنوں کے بعد یہ کچرے کا ڈھیر واپس نالے میں گرجاتا ہے۔ ایسے میں صفائی کا کیا فائدہ؟ لیکن اب ضرورت ہے کہ عوام بھی اپنا حصہ اس کام میں ڈالیں اور سڑک پر یا کسی کے گھر کے سامنے کچراپھینکنے سے گریز کریں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ عوام کے لیے کچرا پھینکنے کی مناسب جگہ" کچراکنڈی" بنائے یا جگہ جگہ کچرے کے ڈرم رکھے۔ جس میںگیلے کا الگ، سوکھے کا الگ اور ری سائیکل کا الگ۔ اس کے بعد عوام کو پابند کیا جائے۔ کیونکہ تالی دونوں ہاتھ سے ہی بجتی ہے۔ سندھ حکومت، بلدیہ کراچی اور کراچی کے عوام کو مل کر ہی کراچی کو مسائل سے پاک کرنا ہے!

تازہ ترین