• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطینیوںکیخلاف عالمی سازشیں تحریر:خواجہ محمد سلیمان…برمنگھم

جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ یروشلم اسرائیل کا آئند دارالخلافہ ہو گا اس لیے امریکہ اس سال اپنی ایمبیسی وہاں پر لے جائے گا۔ اس اعلان کے خلاف دنیا بھر سے مخالفت ہوئی ہے لیکن کسی بھی حکومت نے عملی طور پر کچھ کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔ عرب ممالک میں بھی عوامی سطح پر تھوڑا بہت احتجاج ہوا ہے، لیکن جہاں تک حکومتوں کا تعلق ہے وہاں سے کوئی صدا بلند نہیں ہوئی۔ عرب لیگ جو عرب حکومتوں کی نمائندہ تنظیم ہے اس نے بھی اس پر احتجاج بلند نہیں کیا۔ خصوصی طور پر جب سے عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں کرنل قذافی کو کرسی سے اتارکر قتل کیا گیا ہے اب عرب حکمران مغربی طاقتوں کے سامنے کچھ کہنے کی جرات نہیں کررہے، انہیں خدشہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی یہی حشر ہوگا جو ان ڈکٹیٹروں کا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ تمام عرب حکمران الیکشن کے ذریعے اقتدار کی کرسی تک نہیں پہنچے، کہیں بادشاہت ہے اور کہیں فوجی ڈکٹیٹر شپ ہے، ان حکمرانوں کو اپنے عوام کی تائید حاصل نہیں ہے، اس لیے یہ اپنے عوام کی ترجمانی کرنے کے بجائے مغربی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں پر گامزن ہیں جس سے سامراجیت کو تقویت ملتی ہے۔ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں سامراجیت کا ایک ایسا بدنما داغ ہے جس کو امریکہ کی آشیرواد حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل آج فلسطینیوں کو بے گھر کرکے وہاں پر یہودیوں کی بستیاں آباد کررہا ہے، جوکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق غلط ہے، لیکن وہ کئی دہائیوں سے سارے قانونی اور اخلاقی ضابطے پامال کررہا ہے۔ اقوام متحدہ نے کئی قراردادیں پاس کی ہیں، لیکن یہ ادارہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ جو اس ادارے کو چلا رہے ہیں وہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ فلسطین مسلمان نہتے ہیں، ان کے پاس نہ کوئی فوج ہے اور نہ ہی اسلحہ، جبکہ اسرائیل اسلحہ سے لیس ہے، جب بھی کوئی فلسطینی گروہ اسرائیل کے خلاف احتجاج کی آواز بلند کرتا ہے تو اسرائیل بموں کے ذریعے اس آواز کو دبا دیتا ہے۔ آج سے کئی سال پہلےP.L.Oسے ہتھیار رکھا دیے گئے تھے اور وعدہ یہ تھا کہ اسرائیل کے قرب میں ایک فلسطینی ریاست قائم ہوگی، لیکن یہ ریاست کہاں قائم ہوگی جب کہ دن بہ دن اسرائیلی حکومت تازہ بستیاں فلسطینیوں کی سرزمین پر آکر آباد کررہی ہیں اور امریکہ اس کو تمام فنڈز مہیا کررہا ہے۔ ان حالات میں ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نظر نہیں آتا۔ ویسے فلسطینیوں کو جھوٹے دلاسا دنیا کے لیے مغربی حکومتیں یہ کہہ رہی ہیں، لیکن اسرائیل اور امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ فلسطینی، اسرائیلیوں کے غلام بن کر رہیں اور یا یہ علاقہ خالی کرکے دوسرے عرب ملکوں میں چلے جائیں اور یہی وجہ ہے کہ بہت سارے فلسطینی مقبوضہ فلسطین سے ہجرت کرکے دوسرے ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ مغرب کی طاقتیں مسلمانوں کو کمزور کرکے آپس میں لڑا رہی ہیں اور جو اصلی ان کا دشمن ہے وہ مزے لوٹ رہا ہے۔ ابھی سعودی عرب کے شاہی خاندان کو ایران سے خطرہ نظر آرہا ہے اور وہ اسلحہ خرید کر انبار لگا رہا ہے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو یمن میں شہید کررہا ہے اور کچھ اسلحہ امریکہ کے راستے اسرائیل عرب حکومتوں کو فروخت کررہا ہے اور سعودی عرب یہ اسلحہ خریدنے میں سرفہرست ملک ہے۔ اب ان حالات میں فلسطینی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، لیکن جس امداد کے وہ مستحق ہیں وہ ان کو نہیں مل رہی، صرف ایک امید کی کرن ہے کہ مغربی ممالک کی اپنی عوام اپنی حکومتوں کی اسرائیل نواز پالیسیوں کی مخالفت کررہی ہے، یہاں برطانیہ میں فلسطینیوں کے حق میں بڑے بڑے جلوس نکلتے ہیں، یہاں سے لوگ جاکر فلسطینیوں کی مدد کرتے ہیں، اب اسرائیل اس آواز کو بھی خاموش کرنے کی کوشش کررہا ہے، ہمیں اس آواز کو مزید موثر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
تازہ ترین