ایک غریب گھرانے کا چشم و چراغ جب نمبروں کے معمولی فرق سے سرکاری میڈیکل کالج میں داخلے سے محروم رہ جاتا ہے تو بیچ راستے میں اس کا کوئی دوسرا شعبہ اختیارکرنا پورے خاندان کے لئے ایک کڑی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ مجبور والدین اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لئے نہ جانے کس کس طرح بندوبست کر کے اسے پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلہ دلوا دیتے ہیں لیکن ہراگلا مرحلہ پہلے سے بھی زیادہ اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے کیونکہ ہر آنے والی فیس میں ضرور کوئی نہ کوئی اضافی مد شامل کردی جاتی ہے۔ امتحانی فیس، کلینیکل فیس، یہاں تک کہ میڈیکل کالجوں پر حکومت کے فی طالب علم کے حساب سے عائد کردہ ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس بھی والدین ہی کے سر تھوپ دیے جاتے ہیں۔ ان مشکلات اور مسائل کے باعث اب تک نہ جانے کتنے گھروں میں ہنسی خوشی کی زندگی کو گرہن لگ چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے یوں بے لگام ہو جانے کا بجا طور پر نوٹس لیا ہے۔ اس سلسلے میں کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے ساتھ ایک نجی میڈیکل کالج کے ایسے ہی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ کسی کالج کو زائد فیس وصول نہیں کرنے دیا جائے گا اور اگر ثابت ہوا کہ سہولتوں کے نام پر کسی جگہ زائد فیس لی گئی تو کرمنل کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماہرین سے مشاورت کرکے فیس کا تعین کیا جا رہا ہے اور زائد وصول کی گئی فیس ری فنڈ کرائیں گے۔ اس وقت پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس اور ڈی پی ٹی کے ڈگری اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام کرائے جا رہے ہیں ۔بعض کالج والدین سے ڈونیشن کے نام پر داخلے کے وقت بیس لاکھ روپے تک اضافی چارجز وصول کر کے نااہل طالب علموں کو بھی داخلہ دے رہے ہیں۔ مسیحائی کے اس پیشے کو سرمایہ کاری سے بچانے کیلئے سپریم کورٹ کے یہ اقدامات وقت کی ناگزیر ضرورت ہیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998