• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدا کے لئے!
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف:خدا کے لئے فوج، عدلیہ اور سیاستدان مل کر کام کریں، قوم بڑی دکھی ہے، عمران خان کسی درگاہ پر بیٹھ جائیں۔ فوج اپنی جگہ اپنا کام خوش اسلوبی سے کر رہی ہے اب مارشل لائوں والی فوج کے بجائے جمہوریت نواز فوج ہے، عدلیہ پہلے جیسی نہیں، بلا خوف خطر اور لالچ و حرص آئین و قانون کے مطابق فیصلے دے رہی ہے، اور سیاستدان تو اس قدر اچھا کام کر رہے ہیں کہ ان کی آنیاں جانیاں دیکھ کر قوم دکھی ہو گئی ہے کہ بیچارے کتنے تھک گئے ہوں گے، اور حکمراں بھی تو سیاستدان ہوتے ہیں انہوں نے بھی گڈ گورننس میں اتنے چھکے مارے کہ سارے کے سارے قوم کے منہ پر جا لگے اور وہ کچھ دکھی ہو گئے ہیں لیکن خوش ہیں کہ ٹیم بہت اچھا کھیل رہی ہے، عمران خان درگاہ پر کیا بیٹھیں گے درگاہ تو چل کر ان کے پاس آ گئی ہے، ہمارے ہاں ہر کام خدا کے لئے ہی ہو رہا ہے، نیت اس کے پاس چلی جاتی ہے باقی سب کچھ ہمارے پاس رہ جاتا ہے، گویا جنت میں جانے سے پہلے ہی ’’جنت‘‘ میں ہیں، ایسی جنت کہ؎
جو بڑھ کے تھام لے مینا اسی کا ہے
ہم بتوسطِ خادم اعلیٰ پنجاب پوری قوم سے خدا کے نام پر استدعا کرتے ہیں کہ ’’امپائر کی انگلی‘‘ والی ترکیب اب استعمال کرنا چھوڑ دیں، اس سے مل کر کام کرنے میں رخنہ پڑتا ہے، ہر شخص خود ہی کھلاڑی ہے خود ہی امپائر، بہ الفاظ دیگر اسے خود احتسابی کہتے ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب کی سوچ ہمیشہ مثبت ہوتی ہے، ان کے کاموں کی بھی بڑی دھوم ہے، اور اب وہ ن لیگ کے صدر بھی ہیں، ذمہ داریاں بہت ہیں مگر وہ تنہا نہیں، اب ان کے پاس بھی امپائر کی انگلی ہے جو نظر نہیں آئے گی مگر ن لیگ کو راہ پر ڈالتی رہے گی، ویسے ہدایت دینا مشورہ دینا اس ’’دکھی‘‘ قوم کی بہبود کے لئے ایسے امپائر تو ہونے چاہئیں ان کی انگلی بھی اٹھنی چاہئے، شہباز شریف کے جلسے بہت سے بگڑے کام سنوار دیں گے، اور انتخابات میں جیت کے چراغ روشن کر دیں گے، بس ن لیگ کو مل کر کام کرنا ہو گا خدا کے لئے۔
٭٭٭٭
چیف جسٹس اِن کچرا کراچی
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار:کراچی، اتنا گند ہے، رات بھر مچھر مارتا رہا ایک ہفتے میں صفائی مکمل کریں، میری تعریف کے لئے تشہیری مہم بند کریں۔ مچھر مارنے کے حوالے سے ایک شعر پر تضمین باندھی؎
رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا
مچھر نے مجھ کو میں نے مچھر کو سونے نہ دیا
کراچی جو ایک شہر تھا خوشیوں کا خوشحالی کا اور اس کی سج دھج دیکھ کر ہم بڑے فخر سے کہا کرتے تھے ہمارا کراچی انٹرنیشنل ہے، اب انٹرنیشنل تو کجا نیشنل سطح پر لاڑکانہ کے برابر بھی نہ رہا، اچھا کیا چیف جسٹس نے کراچی کے مچھروں سے ڈسوا لیا اب وہ کراچی کی مچھر پرور غلاظت کا ضرور کوئی سربند کریں گے، کراچی میں انواع و اقسام کے مچھر پائے جاتے ہیں، وہ رات بھر ڈنر غلیظ کردہ علاقوں کے مکینوں کے ساتھ اور ناشتہ بلاول ہائوس میں کرتے ہیں، مگر وہ مکینوں کو نہیں چھیڑتے وہاں موجود ملازمین کی فوج ظفر موج کا خون پسماندہ نوش کرتے ہیں، رہی آپ کی تعریف کے لئے تشہیری مہم تو یہ آپ کے فین اپنی جیب سے کرتے ہیں، اور تشہیر بھی غریبانہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ رزق حلال کھاتے ہیں کماتے ہیں، آپ اس تشہیر کو بند کرائیں جو کروڑوں خرچ کر کے کی جاتی ہے، اور سنا ہے یہ رقومات کثیرہ بھی انہی حلال خوروں کی ہوتی ہیں، ہم غریبوں کو حلال خور کہتے ہیں کہ وطن عزیز میں کوئی رزق حلال میں امیر نہیں بن سکتا، تشہیر کے لئے جلسے کیا کم ہیں جن پر اتنا روپیہ بہایا جاتا ہے کہ دریائے سندھ میں ڈالا جائے تو بہا کر نہ لے جا سکے، سندھ حکومت کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ چیف جسٹس نے جو نہ کرنا تھا وہ بھی کر ڈالا، اب وزیر اعلیٰ سندھ اطمینان سے کرکٹ کھیلیں، ویسے عدالت عظمیٰ بہ نفس نفیس کراچی کو صاف کرنے کا فریضہ بھی ادا کر رہی ہے اس میں اچھی خاصی عبرت بھی ہے اور جائے وقوعہ پر از خود نوٹس بھی، شاید دنیا کے کسی ملک میں یہ نوبت نہ آئی ہو کہ وہاں کے چیف جسٹس نے کسی شہر کی صفائی کے لئے خود زحمت کی ہو، آخر میں اتنا ہی کہہ سکتے ہیں ’’قیاس کن ز گلستانِ ما بہار مرا‘‘ میرے چمن کو دیکھ کر میری بہار کا انداز لگائیں کہ وہ کیا ہو گی۔
٭٭٭٭
آتشبازی، پتنگ بازی، ہوائی فائرنگ
پٹرول بار بار مہنگا کیا ہم کچھ نہ بولے، مہنگائی نے کمر توڑ کے رکھ دی ہم نے آہ تک نہ کی، سفارش، ملاوٹ، گدھا خورانی، کرپشن، ٹریفک مسائل کی ہمارے حوصلے کی کنٹرول لائن پر مسلسل گولہ باری ہو رہی ہے ہم صبر سے سہہ رہے ہیں، لیکن اب یہ جو سرشام ہی عوامی بستیوں میں آتشبازی بمعہ ہوائی فائرنگ شروع ہو جاتی ہے، اس سے آرام کی رات عذاب کا دن بن جاتی ہے، ہوائی فائرنگ دراصل زمینی فائرنگ ہے کیونکہ زمین پر کھڑے ہو کر کی جاتی ہے، اور یہ ہوائی ہو کر بھی جان لے سکتی ہے کیونکہ ممنوعہ بور کی گولی آوارہ بھی ہو تو کسی انسان پر گر کر اس میں چھید ڈال سکتی ہے، ہم نے ان موضوعات بالا پر اتنی بار لکھا ہے، روکا ہے تجاویز دی ہیں، لوگوں کی تکالیف کا خاکہ پیش کیا ہے کہ ایک مکمل انسائیکلو پیڈیا مرتب کیا جا سکتا ہے مگر انتظامیہ نے صوبائی دارالحکومت کی ناک تلے ہونے والی ان قانون شکنیوں اور اذیتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا، اور اب آتے ہیں پتنگ بازی پر جس نے موجودہ موسم کے چند روز میں چار معصوم بچوں سے مائوں کی گود خالی کر دی، نہ جانے آگے چل کر کتنوں نے اس قاتل ڈور کے ہاتھوں مرنا ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب کی اچھی شہرت پر ان تمام مذکورہ عذابوں کے نہ روک سکنے کا دھبہ لگ چکا ہے، پتنگ بازی اگر ماضی کی بے ضرر ڈور کے ساتھ کی جائے تو کوئی حرج نہیں مگر یہ دھاتی اور کیمیکل ڈور سے اڑائی جانے والی پتنگیں تو جان لے لیتی ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پتنگ بازی پر پابندی ہے مگر یہ تو رضا مندی ہے اس پر عملدرآمد نظر نہیں آیا آتش بازی اور ہوائی فائرنگ تھانوں کے آس پاس ہو رہی ہوتی ہے، مگر تھانے حرکت میں نہیں آتے انہیں حکم دیا جائے تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں اوپر سے کوئی آرڈر نہیں، انسانوں کا بیماروں کا طالب علموں کا سکون برباد کرنا بھی جرم ہے، اور یہ جو لائوڈ اسپیکر کا استعمال ہورہا ہے اس پر بھی آنکھ رکھی جائے ایکشن لیا جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین