• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزارت خزانہ کے مشیر مفتاح اسماعیل نے دو روز قبل پاکستان ا سٹیل ملز کی قیمت فروخت ایک ڈالر یعنی ایک سو دس روپے مقرر کرکے اس کے عوض پی آئی اے کے واجب الادا قرضوں کی معافی کے پیکیج کا اعلان حکومت کی ایک طے شدہ سوچ اور حکمت عملی کے تحت کیا۔ گو کہ انکے اس بیان پر اقتصادی ماہرین کے فوری ردعمل کے بعد اس بات کو مذاق قرار دینا اصل میں عوام کو دھوکہ دینے کی ایک اور ایسی کوشش ہے جسے قومی معیشت پر تقریباً 40ارب ڈالر کے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے یا ان قرضوں کے حصول کا کوئی معقول جواز نہیں ہے۔ وزارت خزانہ کے مشیر کی اس بات سے قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کراچی میں گورنر سندھ زبیر عمر اور دیگر حکام کی موجودگی میں کہا تھا کہ میری تو کوشش ہے کہ ا سٹیل مل کو ایک روپے میں فروخت کردیا جائے، یہی بات پی آئی اے کی قیمت کے حوالے سے بھی کہی گئی۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان اداروں کے انتظامی حالات ٹھیک کرنے کے بجائے اعلیٰ حکومتی حکام کی طرف سے ایسی باتیں کرنا اور پھر اسے مذاق قرار دے دینا دراصل قوم کیساتھ مذاق نہیں تو کیا ہے۔ پاکستان ا سٹیل مل کی مالی اور انتظامی حالت بہتر بنانے کے لئے ڈیڑھ دو سال قبل کے نجکاری کمیشن کے سربراہ اور موجودہ گورنر سندھ محمد زبیر عمر نے بڑی کوشش کیں۔ انہوں نے اس حوالے سے وزارت خزانہ اور ہر سطح پر اس کے حالات بہتر بنانے یا اس کی نجکاری کے مختلف امور پر کئی تجاویز اور حل بھی بتائے مگر وزارت خزانہ کی بیوروکریسی نے اپنے طاقت وزر وزیر خزانہ کی طرف دیکھنے کو ترجیح دی۔ یوں پاکستان ا سٹیل مل کی نہ تو نجکاری ہوسکی اور نہ ہی اس کے انتظامی اور مالی حالات بہتر ہوسکے۔
اب حیران کن بات یہ ہے کہ اس وزارت خزانہ کے مشیر نے ایک قومی ادارے کی فروخت کی حکومتی حکمت عملی کو بیان بھی کردیا اور اسے مذاق بھی قرار دے دیا۔ ہماری گزارش ہے کہ قومی اداروں کی نجکاری کے ایجنڈے کی آڑ میں قوم سے یہ مذاق نہ کئے جائیں۔ اس وقت قومی اداروں میں سالانہ اربوں روپے کے وسائل کے ضیاع کو روکنے کے لئے بین الاقوامی کاروباری حالات کے تناظر میں پی آئی اے ہو یا پاکستان ا سٹیل مل، سب کے لئے قابل عمل بزنس پلان بنایا جائے۔ اس سے قبل ان اداروں کے پرفارمنس آئوٹ کے ذریعے گھوسٹ ملازمین اور غیر ضروری اخراجات کی چوری پکڑی جاسکتی ہے۔ پی آئی اے ہو یا پاکستان ا سٹیل مل ، یہ پاکستان کی پہچان ہیں۔ موجودہ حکومت بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح اپنی مس ہینڈلنگ کی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے قابل عمل حل تلاش کرے۔ یہ ادارے فروخت کرنے سے حکومت کو کچھ ملے یا نہ ملے مگر چند خاندانوں یا افراد کے گروپوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ کئی طرح کے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ قومی مفاد میں ہے۔ بہتر ہے کہ اس بارے میں حکومت قومی اداروں کی نجکاری میں تیزی دکھانے کے بجائے حکمت اور سمجھداری سے تمام ا سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے اور یہ کام آئندہ آنے والی حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔ اس لئے کہ موجودہ حکومت کے پاس60۔70دن اور ہیں (اور عمومی تاثر یہی ہے کہ حکومت موجودہ مشکل حالات کے پس منظر میں روزانہ کی بنیاد پر چل رہی ہے) بہتر یہی ہے کہ یہ کام 2018کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت پر چھوڑ دیا جائے، تاہم یہ بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ قومی ادارے روز روز نہیں بنا کرتے۔ یہ کھلونے نہیں سمجھے جانے چاہئیں کہ جب دل کیا انہیں فروخت کردیا۔ بہتریہی ہے کہ ان اداروں کی گورننس اور انتظامی و مالی امور کا نظام موثر بنایا جائے۔ وہاں اصل مسئلہ یہی ہے ورنہ ایک روپے یا ایک ڈالر میں یہ ادارے فروخت کرنے کی باتیں مذاق مذاق میں بےنامی یاروں دوستوں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ فروخت کر دئیے جائیں گے اور ان اداروں کی پراپرٹی اور دیگر اثاثے مفت میں اس ڈیل کے ساتھ ہی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین