بہت گھسا پٹا جملہ ہے ؛ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ یہی گزشتہ بارہ سال میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت نے ثابت کیا ہے۔ مئی 2006 ءمیں شہید بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے جس میثاق جمہوریت پر دستخط کئےتھے اور جس دستاویز کو 1973ءکے آئین کے بعد مقدس ترین قرار دیا، سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے حالیہ الیکشن میں رہی سہی کسر پوری کر کے اسے قصہ پارینہ بنا دیا گیا۔ شہید بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد ایک غیر ملکی صحافی کے استفسارپر کہا تھا کہ یہ درست ہے کہ ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان انتہائی سخت اختلافات رہے ہیں لیکن دونوں جماعتیں آمریت کا شکاربھی بنی ہیں،اس لئے انہوں نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں اکھٹے ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور میثاق جمہوریت اسی عزم کا ثبوت ہے۔ جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والی بے نظیر بھٹو اوراب ووٹ کے تقدس کیلئے جدوجہد کرنے کا دعوی کرنے والے نواز شریف کو جلا وطنی کے دوران بخوبی ادراک ہو چکا تھا کہ لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ان کی منتخب جمہوری حکومتوں کا دھڑن تختہ صرف اسی لئے کیا جا تا رہا ہے کہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا گیا۔ یہ بھی تلخ تاریخ ہے کہ بے نظیربھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے جلا وطنی پر مجبور ہوئے لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزار اور نواز شریف بھی مکافات عمل کا شکار ہو کر بیرون ملک جانے پر مجبورہو گئے۔ دو دو بار وزارت عظمی سے نکالے جانیوالوں کواپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انہوں نے ماضی کی انہی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے رابطوں اور مذاکرات کے طویل سلسلے کے بعد 36کات پر مشتمل میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ اس تاریخی دستاویز میں جو کچھ تحریر کیا گیا تھا وہ ان کو ایک آنکھ نہ بھایا جو ساڑھے پانچ دہائیوں سے جمہوریت میں مساوی شراکت دار بن چکے تھے۔ کل تک ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک اور آمریت کی پیداوار کے طعنے دینے والے ایسے شیرو شکر ہوئے کہ اس وقت کے آمر پرویز مشرف سمیت بہت سوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ اس معاہدے کے چیدہ نکات کی ذریعے یہ عزم کیا کہ 1973ءکے آئین کو 12اکتوبر 1999ء سے پہلے کی اصل شکل میں بحال کیا جائیگا ، گورنروں اورچیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سمیت مسلح افواج کے سربراہان کا تقرر چیف ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم کرینگے، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری ایک کمیشن کے ذریعے ہو گی جس کا سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان ہو گا لیکن اس نے کبھی پی سی او پر حلف نہ اٹھایا ہو۔ ججز کو ہٹانے کیلئے میکانزم تیار کیا جائے گا جبکہ انسداد دہشتگردی اور احتساب عدالتوں سمیت تمام خصوصی عدالتیں ختم کر کے تمام مقدمات عام عدالتوں کوبھیج دئیے جائیں گے۔ آئینی معاملات کے تصفیے کیلئے وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کی مدت چھ سال پر محیط ہوگی۔ قومی سلامتی کونسل ختم کر کے وزیر اعظم کی سربراہی میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی قائم کی جائے گی، تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی ہٹا لی جائے گی، ٹروتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کمیشن قائم کیا جائے گا جو مخصوص مقاصد کیلئے کی گئی قانون سازی اور سیاسی انتقام کے واقعات سمیت آمریت کے ذریعے سول حکومتوں کے خاتمے کےبارے میں اپنی سفارشات سمیت رپورٹ تیار کرے گا ،سیاسی انتقام کیلئے قائم کردہ نیب کی جگہ آزاد احتساب کمیشن قائم کیا جائے گا۔ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کوتسلیم کیا جائے گا اور کوئی فریق دوسرے کی حکومت گرانے کیلئے ماورائے آئین اقدامات کا سہارا نہیں لے گا، کوئی فریق فوجی حکومت یا اس کی حمایت یافتہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گا ، کوئی جماعت اقتدار میں آنے یا جمہوری حکومت کو گرانے کیلئے فوج کی مدد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گی، سینیٹ اور بلواسطہ کسی بھی الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ اور بد عنوانی کو روکنے کیلئے اوپن رائے شماری ہو گی، مسلح افواج اور عدلیہ کے تمام افسران سیاست دانوں کی طرح عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہوئے اپنی آمدنی اور اثاثہ جات کے سالانہ گوشوارے جمع کرانے کے پابند ہوں گے، انٹیلی جنس ایجنسیز منتخب وزیر اعظم کے ذریعے حکومت کو جوابدہ ہوں گی، ان کے سیاسی ونگز ختم کر دیئے جائینگے۔ اگرچہ شہید بے نظیر بھٹو نے برسر اقتدار آمر پرویز مشرف سے این آر او کی ڈیل کر کے اس میثاق جمہوریت کی اسی وقت نفی کر دی تھی جس کے بارے میں نواز شریف بھی گلہ کرتے رہے ہیں تاہم بے نظیر بھٹو نے مشرف کو ایوان صدر سے نکالنے کیلئے اسے ایک سیاسی حکمت عملی سے تعبیر کیا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری ان کی وراثت کے امین ٹھہرے تو انہوں نے بھی اس معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے نواز شریف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ بطور شریک چیئرپرسن پیپلز پارٹی انہوں نے معاہدہ بھوربن کے ذریعے ن لیگ کو وفاقی کابینہ میں شامل کر کے میثاق جمہوریت کی تجدید بھی کردی لیکن پھرجلد ہی انہی معاہدوں کے قرآن وحدیث نہ ہونے کا بیان دے کر مفاد پرست ہونے کا ثبوت بھی دے دیا، ججز رہائی پر اگرمگر اور پرویز مشرف کے تمام اقدامات کی توثیق کرنے کیلئے نواز شریف کی حمایت طلب کرکے آصف زرداری نے ان کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر دئیے جس کا نتیجہ دونوں جماعتوں کے ایک دوسرے سے دور ہونے کی صورت میں نکلا۔ شریف بردران کو ضمنی الیکشن سے دور رکھنے اور پنجاب میں گورنر راج کے نفاذجیسے اقدامات بھی میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی قرار پائے۔ منتخب جمہوری حکومت کے خلاف نوازشریف کے لانگ مارچ نے بھی تاریخی دستاویز کو دھندلانے میں کردا اد اکیا تاہم ججز بحالی کے اعلان کے بعد لانگ مارچ کوختم کرنے کے فیصلے نے جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے سے بچا لیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کی بری گورننس نے نواز شریف کو متعدد مواقع فراہم کئے کہ وہ غیر جمہوری قوتوں کے سہارے سے اسے چلتا کریں لیکن میثاق جمہوریت کالحاظ انکے آڑے آتا رہا۔ یہ لحاظ وہ اس وقت تک کرتے رہے جب تک آصف زرداری نے میثاق جمہوریت پر عمل درآمد کرتے ہوئے 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نہ صرف نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے پرعائد پابندی کوختم کرا دیا بلکہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے جیسے صدر مملکت کے اختیارات سے بھی ہاتھ دھو لئے۔ مخصوص مقاصد کے حصول کے بعد نواز شریف اور مسلم لیگ ن کیلئے اپوزیشن میں پانچ سال پورے کرنا مشکل ہوتا گیا اور وہ پہلے کیری لوگر بل اور بعد میں میمو گیٹ میں منتخب جمہوری وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت کیخلاف سپریم کورٹ میں جا کھڑے ہوئے۔ اگرچہ طویل ترین دھرنے میں پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی رہی لیکن ن لیگ نے کراچی میں آپریشن کیلئے ایپکس کمیٹیوں کے ذریعے اپنا وزن دوسرے پلڑے میں ڈال دیا، ڈاکٹر عاصم اور ایان علی کے مقدمات کی تپش جب آصف زرداری تک پہنچنے لگی تو انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی تقریر کر ڈالی جس کا بوجھ میاں صاحب نہ سہار سکے اور انہوں نے آصف زرداری سے طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کر ڈالی،وہ دن اور آج کا دن آصف زرداری نے نواز شریف پر اعتماد نہ کیا،لیگی رہنماوں نے بڑے پاپڑ بیلے لیکن مفاہمت کے بادشاہ نے ہوا کا رخ بھانپ کرمیثاق جمہوریت کو بھلا کر دور رہنے میں ہی عافیت جانی۔سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں کیلئے عبرت کا ساماں ہے،اب بھی وقت ہے دونوں جماعتوں کی قیادت میثاق جمہوریت سے گرد جھاڑ کراسے سامنے رکھے ،گزشتہ دس سالوں کے اپنے اقدامات کا موازنہ اس دستاویز میں درج 36 نکات کے ساتھ کرے ورنہ یہ نہ ہو کہ اب کی بار انہیں کوئی معاہدہ کرنے کی مہلت بھی نہ ملے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)