• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خصوصی تحریر…بیرسٹر عامر حسن

قیام پاکستان کے بعد تقریباً ایک صدی تک عوام کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا تاکہ حکومت کا بننا اور ٹوٹنا عوامی رائے کے بغیر ہی جاری رہے۔ جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے خلاف شدید عوامی مزاحمت نے ’’ایک ووٹ ایک فرد‘‘ کے نظام کو رائج کروانے کو ممکن بنایا۔ اس عوامی مزاحمتی تحریک کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو نے کی اور عوام نے اُنھیں ’’قائد عوام‘‘ کا رتبہ عطا کیا۔ اس تمام جمہوری جدوجہد میں خاندان شریفاں کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ مگر 1977میں قائدعوام کے عدالتی قتل، عوام کے حق حاکمیت پر ڈاکہ ڈالنے اور ووٹ کی تذلیل کرنے والے آمر ضیاء کے حمایتیوں میں خاندان شریفاں کا ظہور ہوا۔ اور اس کی وجہ بھٹو صاحب کی معاشی مساوات کی وہ پالیسی بنی جس کی وجہ سے یہ خاندان اپنی فیکٹری سے محروم ہوا ۔

1985کے غیر جماعتی انتخابات کا مقصد ملک سے نظریاتی سیاست کا خاتمہ تھا اس کیلئے سرمایہ دارانہ،لسانی اور صوبائی تعصب پر مبنی سیاست کو فروغ دیا گیا۔ پنجاب کے وزیر خزانہ میاں نواز نے اپنے نعرے ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کی بنیاد پر سیاست کی۔ جنرل ضیاء حمایت میں آیا اور وزارت اعلیٰ کا تاج سجدہ ریز سر پر رکھا گیا۔

جنرل ضیاء کو یہ کمزور اور غیر جماعتی عوامی فیصلہ بھی راس نہ آیا تو اُس نے 1988میں حکومت برخاست کر دی۔ میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے سربراہ اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے بجائے ایک دفعہ پھر ’’ووٹ کی تذلیل کرنے والے ‘‘جنرل ضیاء کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ جنرل ضیاء کا دور فضائی حادثہ میں ختم ہوا تو میاں نواز شریف جنرل ضیاء کے نظریاتی وارث بن کر اُبھرے اور آمر ضیاء کی قبر سے اعلان کیا کہ میں ضیاء کا مشن پورا کروں گا۔

1988کے انتخابات میں عوام نے ووٹ کے ذریعہ پیپلز پارٹی کو منتخب کیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو عالم السلام کی پہلی خاتون وذیر اعظم بنیں۔ مگر میاں نواز شریف نے ووٹ کی عزت کے برخلاف ’’چھانگا مانگا اپریشن کے ذریعہ ہارس ٹریڈنگ کی بنیادی رکھی اور نادید ہ قوتوں کی مدد سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اور پھر چابی والا کھلونا کر منتخب وزیر اعظم کے خلاف لشکر کشی کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کیا۔

اب کی بار تاریخ کا گھنائونا کھیل کھیلا گیا ۔ پیپلز پارٹی کے خلاف اتحاد بنایا گیا اورنادیدہ قوتوں نے بی بی کے مخالف سیاستدانوں میں کثیر سرمایہ تقسیم کیا۔ نتیجتاً میاں نواز شریف کو 1990کے انتخابات جیت گئے۔ 1993میں دوبارہ عوام نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم منتخب کیا لیکن میاں نواز شریف کی کوششوں سے جمہوری حکومت ختم ہوئی ۔

اس دفعہ ہر وہ کام کیا گیا جس سے جمہور ،جمہوریت اور ووٹ کا وقار مجروح ہو۔ ذاتی اختیارات کی جنگ کے نتیجہ میں ملک بھر مارشل لا کی لپیٹ میں آ گیا۔ میاں صاحب کو چند ماہ کی قید و بند نے خوفزدہ کر دیا اور خاندان شریفاں نے آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے اور ووٹ کی عزت بحال کروانے کے بجائے آمر سے معافی مانگ کر سرورپیلس سدھارنے میں ہی عافیت سمجھی۔

بی بی نے واپسی کا فیصلہ کیا اور ہر طرح کے بندوق والوں کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا اسی آڑ میں خاندان شریفاں کی واپسی کی راہ ہموار ہو گئی۔ دہشت گرد نے نہتی بے نظیر کے خلاف متحد تھے۔ منصوبہ تیار ہوا اور 27دسمبر 2007کو پیپلز پارٹی کا پانچواں اصول دوبارہ تازہ لہو سے لکھا گیا کہ ’’شہادت ہماری میراث ہے‘‘

چاروں صوبوں کی زنجیر ٹوٹ گئی مگر مردحُر نے آگے بڑھ کر جلتے پاکستان میں‘‘ پاکستان کھپے کا نعرہ مستانہ بلند کیا۔ اور بلاول بھٹو نے انتخابات کے بائی کاٹ کے جواب میں ووٹ کے تقدس کی حمایت میں اعلان کیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ لہٰذا ووٹ کے ذریعہ دوبارہ جمہور کا حق حاکمیت بحال ہوئی اور آصف علی زرداری نے آمر کو اقتدار سے بے دخل کرکے ایوان صدر کو جمہوریت سے مزین کیا اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے اور ووٹ کی عزت بحال ہوئی اور پھر اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے منتخب وزیر اعظم کوسپریم کورٹ سے نا اہل کروایا اور فاتحانہ انداز میں فرمایا کہ ’’یہ کوئی حیوانوں کا معاشرہ نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو نہ مانا جائے۔‘‘

2013کے بھاری بھرکم مینڈیٹ نے تکبر کی 7ویں منزل پر پہنچا دیا۔ دھرنوں نے لرزہ طاری کیا تو پارلیمان یاد آ گیا۔ خطرہ ٹلتے ہی دوبارہ رعونت حاوی ہو گئی۔ کبھی ووٹ کی عزت اور ووٹ کے ذریعہ قائم پارلیمان کے وقار کا خیال نہ آیا۔

تکبر اور رعونت کا سفر جاری تھا کہ پانامہ اور اقامہ آگئے۔ سپریم کورٹ کے پہلے فیصلہ پر مٹھائیاں تقسیم ہوئیں دوسرے فیصلہ میں نااہل ٹھہرے تو ووٹ کی عزت کا خیال آ گیا۔ میاں صاحب پاکستان کی تاریخ میں ووٹ کی عزت کو سب سے زیادہ آپ نے پامال کیا ہے تاریخ میں ان گناہوں پر پردہ پوشی ناممکن ہے۔ لہٰذا ان تمام تاریخی حقائق کو تسلیم کرنے اور ان پر قوم اور جمہوری قوتوں سے معافی مانگے بغیر کیسے مان لیا جائے کہ آپ نظریاتی بن کر ووٹ کو عزت دینا چاہتے ہیں۔ کہیں یہ تخت جاتی امراء کے خاندان شریفاں کی بادشاہت کی بحالی کی تحریک تو نہیں ۔

عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومن

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

تازہ ترین