• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:خوشگوار موسم کے سیاستدان مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرچکے

اسلام آباد( محمدصالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) ایک طرف پاکستان مسلم لیگ نون کے وہ ارکان اسمبلی جنہیں اپنی پارٹی سے آئندہ انتخابات میں اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر ٹکٹ ملنے کی توقع نہیں یا وہ خوشگوار موسم کے سیاستدان ہیں مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں جن کی تعداد انتہائی محدود ہے جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ کے طویل عرصہ تک سربرآوردہ رہے رہنما سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پارٹی قیادت سے گلہ گزاری کرتے ہوئے ایسے اشارے دیئے ہیں جن سے گمان ہوتا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کی موجودہ حکمت عملی سے قطع تعلقی اختیار کرچکے ہیں، پارٹی سے کچے دھاگے کے ذریعے ان کا بندھن کب تک برقرار رہتا ہے یہ کافی دلچسپ سوا ل ہے، انہیں پارٹی میں اثاثے کے طورپر یاد کیا جاتا رہا ہے اور نواز شریف نے اپنے کئی مقربین کی خفگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان کے ساتھ اپنے تعلق کو نبھایا انہیں خاطر خواہ قدرومنزلت دی گئی وہ طویل عرصے تک نواز شریف کے سیکنڈ ان کمانڈرہے اب جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون اور نوازشریف کے لئے دشواریوں کا زمانہ ہے بعض اکابرین نے پارٹی سے فاصلہ اختیار کرلیا ہے ۔ چوہدری صاحب بھی ان میں شامل ہیں، چوہدری نثار علی خان ایک زمانے تک پیپلز پارٹی کے سخت ناقد رہے ہیں اس کی موجودہ قیادت کے بارے میں ان کے جذبات میں کبھی نرمی نہیں دیکھی گئی گزشتہ سال کے وسط تک انہوں نے پیپلز پارٹی اور اس کی سندھ حکومت کو اس حد تک زچ کیا کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ اس کے تعلقات کار بھی تقریباً تقریباً ختم ہوگئے، پھر وہ زمانہ آیا جب چوہدری نثار علی خان کے ممدوح عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے پاکستان مسلم لیگ نون کو گزند پہنچانے کے لئے پاکستان کے عوام پر قافیہ حیات تنگ کرڈالا ، ایسے میں پیپلز پارٹی جسےمیثاق جمہوریت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ نون کی ہمنوائی کرنا بنتی تھی ،پہلےتو ایک طرف بیٹھ گئی پھر اس نے تحریک انصاف کا آموختہ یاد کرلیا اب پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف مسلم لیگ نون کو گزند پہنچانے کےلئے یک جان دو قالب ہوچکے تھے یہ الگ بات ہے کہ اس تعلق کے استوار ہونے سے دونوں پارٹیوں کے کارکن بد دل ہوئے اور انہوں نے اپنی قیادتوں پر اس کےلئے لعن طعن بھی کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چوہدری نثار علی خان کو پارٹی نے جب بھی کوئی ذمہ داری تفویض کی انہوں نے اسے حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ تاہم گزشتہ دوسوا دو سال سے ان کے طرز عمل میں نئی طرح کی خفگی در آئی ہے۔اس پورے عرصے میں گرم و سرد پھونکیں مارتے رہے ہیں اب انہوں نے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ نون لیگ میں اختلاف رائے کی آزادی سلب ہوچکی ہے انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں عمران خان کے خلاف بیان دینے کےلئے کہاگیا تھا انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جس سے تیس سال کا تعلق ہو اس سے بگاڑنے میں بھی تیس سال لگنے چاہئیں، چوہدری نثارعلی خان کا یہ موقف حد درجہ خطرناک ہے کہ سپریم کورٹ سے تصادم کی پالیسی نہیں اپنانی چاہیے نواز شریف کو عدالتی فیصلے پر تحفظات ہیں تو انہیں قانونی راستہ اپنانا چاہیے اس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ نواز شریف سپریم کورٹ سے تصادم کی حکمت عملی پر کاربند ہیں حالانکہ انہوں نے سپریم کورٹ کے بارے میں بطور ادارہ کبھی استہزائی لب و لہجہ اختیار نہیں کیا، پاکستان مسلم لیگ نون میں اختلاف رائے کی جس آزادی کا ذکر چوہدری نثار علی خان کررہے ہیں وہ تو اس وقت بھی مفقود تھی جب چوہدری نثار علی خان وفاقی وزیر داخلہ تھے اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کی وزارت میں کوئی اختلافی نکتہ یا شوشہ بھی پیش کرسکے، نواز شریف اورشہباز شریف کی اپنے حکومتی اور پارٹی کی پالیسیوں پر چھاپ بلاشبہ بہت گہری ہے لیکن جس قدر اہم امور گفت و شنید اور داخلی مشاورت کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ نون میں چلائے جاتے ہیں اس کی مثال کو ئی دوسری پارٹی نہیں پیش کرسکتی، قصہ یوں تھا کہ چوہدری نثار علی خود ہی اس حلقے سےالگ ہوگئے جس میں قریب ترین افراد بیٹھ کر فیصلے کرلیا کرتے تھے انہیں اس کا گلہ نہیں کرنا چاہیے، چوہدری نثار کو دیانتدار ،راست باز اوربااصول شخص تصور کیا جاتا ہے انہیں عمران خان کے ساتھ دوستی اورطویل عرصے تک ایک ساتھ کرکٹ کھیلنے کا بھی دعویٰ ہے انہیں چاہیے کہ وہ عمران خان کے لب و لہجے اور اخلاق باختہ رویوں کا موازنہ اپنے دوسرے ہمدم دیرینہ نواز شریف سے بھی کریں جوشخصی شرافت کا نمونہ ہیں، چوہدری نثار کو اس شخص کی دوستی پر ہرگز فخر نہیں ہونا چاہیے جو اپنے ذاتی کردار کے حوالے سے اطمینان بخش تو دور کی بات ہے محض کوئی وضاحت بھی پیش کرسکے۔ جس کے رشتے ناتےمسلمانوں اور پاکستان کے دشمنوں سےملتے ہوں جس نے پاکستان کی سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے چوہدری نثار اس شخص کے ساتھ محض کرکٹ کی پارٹنر شپ ہونے کی بنا پر اس شخص سے اپنے قلبی تعلق کو تیاگ دینے کےلئے آمادہ ہیں جس نے پوری زندگی کسی کو گالی نہیں دی اور ہمیشہ اچھے مسلمان کے طورپر رہنے کی کوشش کی ہے، چوہدری نثار علی خان سے توقع تھی کہ وہ گھر کی ناراضگی گھر میں ہی درست کرتے ،کھلے بندوں انہیں نوازشریف کا دفاع کرنا چاہیے تھا کجا یہ کہ بعض معاملات میں ان کی تبصرہ آرائی سے گریز نے الزامات کی توثیق کا پہلو برآمد ہوا، چوہدری صاحب کو مشورہ ہے کہ وہ اپنے رویے کی تحلیل نفسی کریں۔
تازہ ترین