• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر ایک اور حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔ تیاری کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نوّے فیصد کام ہو چکا اور جیسے ہی دس فیصد کمی پوری ہوتی ہے، ”دھماکا“ کر دیا جائے گا۔ یہ نہیں بتایا جا رہا کہ ”دھماکا“ ہے کیا مگر چیف جسٹس مخالف لابی پرامید ہے کہ ایک ہفتہ تک کام مکمل ہو جائے گا۔ ایک صاحب کا فرمانا ہے کہ حملہ اس مرتبہ مکمل اور ناقابل شکست ہو گا اور ثبوت بھی پکے ہونگے۔ نجانے افتخار چوہدری کے مخالف اب کیا کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر ابھی تک ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ جنرل مشرف اور ان کے حواریوں نے کیا کچھ نہیں کیا، کون کون سے ”دھماکے“ نہیں کروائے مگر ہر ”دھماکے“ کے بعد اللہ تعالیٰ نے افتخار محمد چوہدری صاحب کو مزید عزّت دی۔ جو جو بھی چیف جسٹس کو جانتا ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ کرپشن سے ہمیشہ پاک رہے۔ کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ اعلیٰ ترین عدالتوں کا جج ہونے اور بلوچستان ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کا چیف جسٹس ہونے کے باوجود کسی شخص کے پاس پاکستان بھر میں رہنے کے لئے اپنا گھر نہ ہو۔ موجودہ حکومت نے حکومتی پالیسی کے تحت چیف جسٹس کو تین کروڑ کا پلاٹ دینے کی کوشش کی مگر اُنہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ موجودہ سپریم کورٹ کے کئی اور جج صاحبان نے بھی یہ پلاٹ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کو ایک سال اور چند ماہ رہ گئے مگر افتخار محمد چوہدری صاحب کو ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ اپنا گھر بنا بھی سکتے ہیں کہ نہیں۔ اعلی حکومتی شخصیت کے ایک قریبی سینیٹر نے بار بار الزام لگایا کہ چیف جسٹس نے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قرضہ لیا۔ جب ہمارے رپورٹر احمد نورانی نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ مگر ایسے کئی جھوٹ کچھ ٹی وی چینلز پر بار بار پیش کئے گئے تا کہ چیف جسٹس کو بدنام کیا جا سکے۔ ان تمام جھوٹوں کا پول انشاء اللہ احمد نورانی بہت جلد عوام کے سامنے کھول کر رکھ دینگے۔
مگر یہاں سمجھنے کی یہ بات ہے کہ آخر کار افتخار محمد چوہدری سے ایسا کیا قصور سرزد ہو گیا کہ ہر طاقت ور اُن کا دشمن بن گیا۔ یہ تو وہ شخص ہے جس نے اس ملک کو آزاد عدلیہ دینے کا خواب شرمندئہ تعبیر کیا، جو تن تنہا کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف لڑ رہا ہے، جو 18-18 گھنٹے کام کرتا ہے تاکہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور لوگوں کو انصاف ملے، جس کو خریدا نہیں جا سکا اور جھکایا نہیں جا سکا، جو عوام کے لئے آخری امّید کی کرن بن کر ابھرا ہے، جس نے گم شدہ افراد کا معاملہ اٹھایا اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ تک سے ٹکر لے لی، جس کی کاوشوں سے اس قوم کا کئی سو ارب روپیہ لٹیروں کی جیبوں سے نکالا گیا یا لٹنے سے بچایا گیا۔ ایسے شخص کو سراہنے اور اس کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے مستقبل کو سنوارنے کی بجائے اس کے خلاف سازشوں پر سازشیں کی جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس کا یہی جرم ہے کہ انہوں نے ”بڑے بڑوں“ سے ایکا کرنے کی بجائے عوامی فلاح اور ملکی مفاد میں ہر”بڑے“ سے ٹکر لینے کی ٹھان لی۔
مگر اللہ نے اس شخص کو اگر ہر شر سے محفوظ رکھا تو آزمائشیں بھی خوب دیں۔ چیف جسٹس کی آزمائشوں کا حال سنیئے کہ ان کے بیٹے کو کرپشن کے جال میں پھنسایا گیا۔ پھنسانے والوں نے کوئی ایف آئی آر کٹوائی اور نہ حکومت نے کارروائی کی۔ سارا زور میڈیا ٹرائل پر تھا۔ چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کے خلاف نہ صرف سوموٹو نوٹس لیا بلکہ اسے اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ملک ریاض کے ارسلان کے خلاف الزامات مئی 2012ء میں سامنے آئے مگر آج تک ارسلان افتخار کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے باپ کے گھر جا سکے۔ گزشتہ ماہ عید الفطر کے موقع پر بھی باپ بیٹا نہیں ملے۔ چیف جسٹس نے عید کوئٹہ میں منائی جبکہ ارسلان افتخار نے اپنی ماں اور بہنوں کے ساتھ یہ تہوار لاہور میں منایا۔ اگر بیٹے پر کرپشن کے الزامات ہوں یا وہ کرپٹ ثابت بھی ہو جائے توکیا اس سے باپ بیٹے کا رشتہ توڑا جا سکتا ہے مگر ہم نے چیف جسٹس کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیا۔
افتخار محمد چوہدری یقینا کوئی فرشتہ نہیں مگر ان کے طاقت ور مخالف ان کے خلاف ابھی تک کوئی کیس بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مشرف نے سارا جہاں چھان مارا مگر پیٹرول کی پرچیوں سے آگے اسے کچھ نہ ملا۔ آج کے طاقت ور کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کے بیٹے نے پیسہ کہاں سے کمایا۔ ان کی فیملی نے عام ٹکٹ لے کر پی آئی اے میں فرسٹ کلاس میں کیسے سفر کیا اور نجانے کیا کیا۔ بھئی بیٹے نے اگر غلط کیا تو اُسے پکڑو۔ اگر چیف جسٹس نے قانون کی خلاف ورزی کی تو ان کے خلاف بھی ریفرنس لاؤ مگر یہ کیا کہ بس میڈیا کے ذریعے ”دھماکے“ پر ”دھماکا“ کئے جانا ہے، صرف اس لئے کہ افتخار محمد چوہدری کسی طاقت ور کے سامنے جھکنے کیلئے تیار نہیں اور یہی چیف جسٹس کا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ یہاں اپنے قارئین کے ساتھ ایک خبر بھی شیئر کرتا چلوں۔ ذرائع کے مطابق ارسلان کیس میں آئی ایس آئی کا نام آنے پر آرمی چیف جنرل پرویز کیانی نے ان خبروں کا سختی سے نوٹس لیا اور یہ احکامات دیئے کہ پاکستان کے اس پرائم انٹیلی جینس ادارے کو کسی بھی شخص کے مفاد کے لئے استعمال کرنے والے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہی ذرائع کے مطابق جنرل کیانی نے اپنے بھائیوں کے بھی کان کھینچے ہیں جو ان کیلئے بدنامی کا باعث بن رہے تھے اور ان کو تنبیہ کی کہ وہ اپنے کاروباری معاملات میں صاف شفّاف رہیں۔ آئی ایس آئی کو تو کسی غیر قانونی کام سے باز رھنے کا سختی سے کہہ دیا گیا ہے مگر کوئی ہے جو اُن انٹیلی جینس اداروں کو دیکھے جو ججوں، صحافیوں اور دوسرے اہم لوگوں کے فون ریکارڈ کر کے پرائیویٹ طاقت ور افراد کو پہنچاتے ہیں۔
تازہ ترین