• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آئی ایم ایف کا پی آئی اے، اسٹیل مل، پاور سیکٹرمیں 1.2ٹریلین خسارے کا تخمینہ

آئی ایم ایف کا پی آئی اے، اسٹیل مل، پاور سیکٹرمیں 1.2ٹریلین خسارے کا تخمینہ

اسلام آباد (مہتاب حیدر)عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف ) نے پاکستان کی پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، پاور سیکٹرو دیگر)میں 1اعشاریہ 2ٹریلین روپے مجموعی خسارے کا تخمینہ لگایا ہے جو مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی )کے 4فیصد کے برابر بنتا ہے۔ آئی ایم ایف نے سفارش کی ہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھا کر ریکوری پوری کی جائے جب تک بنیادی ڈھانچے کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ آئی ایم ایف حکام نے پی آئی اے اور سٹیل مل کے خسارے پر جلد از جلد قابو پانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ میں آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کا مجموعی خسارہ 1.2ٹریلین روپے یعنی جی ڈی پی کے 4فیصد کے برابر ہے۔ اس صورتحال میں آئندہ بجٹ کے لئے بڑے مالی ذرائع کا انتظام کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے مسلسل خسارے کی وجہ سے مالی خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کی پرائیویٹائزیشن اور ریسٹرکچرنگ سے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے، اس وقت جبکہ پی آئی اے اور سٹیل مل خسارے میں چل رہی ہے حکومت کو اسی دوران بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بقایاجات کی مد میں بڑی رقم ادا کرنی ہے، گردشی قرضے جو کہ 2015-16میں زیرو تھے، وہ جولائی 2016ء میں 193ارب روپے تھے جبکہ یہ قرضے دسمبر 2017ء تک 517 ارب روپے تک پہنچ گئے ، جو کہ جی ڈی پی کا 1.5فیصد بنتا ہے۔ دوسری جانب گیس سیکٹر میں سبسڈی اور ٹیرف اپ ڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے بقایاجات بڑھ رہے ہیں۔آئندہ بجٹ میں مالی خسارہ کافی بڑھنے کا امکان ہے، آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ موجودہ پالیسیاں جاری رہیں تو بجٹ خسارہ 5.5تک ہو سکتا ہے، ٹیکس کولیکشن زیادہ ہونے، درآمدات میں بڑھوتری، تیل کی قیمتوں میں اضافے، زرمبادلہ کی شرح میں کمی اور ریگولیٹری ڈیوٹیز کا نفاذ اور شرح سود میں کمی کی وجہ سے توقع ہے کہ خسارے میں کمی کے لیے معتدل اثرات مرتب ہوںگے۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے ترقیاتی اخراجات کے لئے بجٹ میں اضافے کو روکنا اور صوبوں کے ساتھ رابطے بڑھانے کے فیصلے کی وجہ سے خسارے کو برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے، الیکشن تک ہرحال میں مالیاتی خسارےکو برقرار رکھنے کے خلاف خطرات موجود ہیں۔ درمیانی مدت میں یکساں مالی خسارہ اور بقایا جات جو کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں ہوئے وہ برقرار رہنے کی توقع ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھنے کا امکان ہے جو کہ جی ڈی پی کا 5.8 فیصد ہوسکتا ہے، جبکہ بڑھتی شرح سود اور پی ایس ایز کو سبسڈی سے ہونے والے خسارے کو ٹیکس کولیکشن بہتر کرکے پورا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی حکام کو آئندہ مدت میں شرح نمو میں اضافے کی توقع ہے۔ حکام کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کا بنیادی منظرنامہ ان کے پالیسی اقدامات کے مطابق نہیں ، جس کا مقصد مالی استحکام اور ایکسٹرنل اکائونٹ کی بہتری ہوتا ہے، بشمول ترقیاتی اخراجات کے استعمال ، زرمبادلہ کی شرح کی بہتری، درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کیلئے اقدامات کرنا۔ پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ اس سے درمیانی مدت میں ادائیگیوں کا توازن بحال اور اہم مالیاتی اثرات پیدا ہوں گے۔ حکام کے منصوبے کے مطابق زرمبادلہ کی شرح میں اضافہ جو کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھا کر کیا جائے گا اور صوبوں کا سرپلس بجٹ مرکزی حکومت کے بجٹ خسارے کو مالی سال 2017-18 میں 5 فیصد تک رکھے گا اس کے علاوہ حالیہ زرمبادلہ کی شرح میں کمی اور تجارت کے لئے دیگر اقدامات کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی ، اس کے ساتھ مجموعی ذخائر 13اعشاریہ 9ارب ڈالر پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ مائیکرو اکنامک کے استحکام سے ہونے والے فوائد کی وجہ سے رواں سال جی ڈی پی 6فیصد تک جبکہ مالی سال 2018-19 میں یہ شرح 6.5فیصد تک جا سکتی ہے ، بشرطیکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد برقرار رہے۔ حکام نے اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ حالیہ مائیکرو اکنامک مسائل پر ضرورت کے تحت قابو پانے کے لئے مزید اقدامات کئے جائیں گے۔ آئی ایم ایف نے حکومت کی طرف سے نظرثانی شدہ بجلی ٹیرف، پاور سیکٹر میں ادائیگیوں اور سرکلر ڈیٹ سمیت تقسیم کار کمپنیوں کو ادائیگیوں ، خسارے اور ریکوری وغیرہ کے لئے فائدہ مند ثابت قرار دیا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین