• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خادم رضوی کی گرفتاری مشکل،تاخیری حربے استعمال ہونگے، تجزیہ کار

خادم رضوی کی گرفتاری مشکل،تاخیری حربے استعمال ہونگے، تجزیہ کار

سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ خادم حسین رضوی کو پکڑنے میں حکومت تاخیری حربے استعمال کرے گی، فیصلے کی تعمیل کیلئے دل گردے کی ضرورت ہے، حکومت تعمیل نہ کرسکے تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔

خادم حسین رضوی نے جو زبان استعمال کی اسے شعلہ بیانی نہیں کہتے ، شان رسالت قانون کو چھیڑنے کے عمل سے ن لیگی خود بھی پریشان ہیں، جس وقت ان کیخلاف کارروائی کرنی چاہئے تھی ریاست نہ کرسکی، حکومت انہیں کیسے پکڑے گی جن سے معاہدہ ہی خودکیا، حکومت کوخدشات ہیں کہ گرفتاری کے بعد حالات خراب نہ ہوجائیں۔

عمران خان نے ابھی تک بغیر سپورٹ کے سیاست کی ہی نہیں ہے، ان کی اپنی سیاست نہیں کہتے ہیں وہ ا بھی بھی کہتے ہیں کہ اداروں کے پیچھے کھڑے ہیں،سب جانتے ہیں راؤ انوار کہاں ہیں لیکن خاموشی اختیار کرکے بیٹھے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار حسن نثار، امتیاز عالم ، ارشاد بھٹی ، شہزا دچوہدری ، مظہر عباس اورحفیظ اللہ نیازی نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان وجیہہ ثانی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

میزبان کا پہلا سوال کیا حکومت عدالتی فیصلے کی تعمیل کر سکے گی ؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ مولانا خادم حسین رضوی نے جو زبان استعمال کی اسے شعلہ بیانی نہیں کہتے، ریاست کو جس وقت ان کیخلاف کارروائی کرنی چاہئے تھی ریاست نہ کرسکی، اگر انہیں کسی طاقت ور کی سپورٹ مل گئی تو شاید حکومت پکڑنے میں ناکام رہے، ن لیگ کے شان رسالت قانون کو چھیڑنے پر خود ن لیگی بھی پریشان ہیں، یہ معاملہ حساس ہے اور تمام مسلمانوں کو اس سے تکلیف ہوتی ہے ، ن لیگ جتنا مرضی جاتی امرا میں میلاد کرالےاس قانون میں ترمیم کے بعد انہیں نقصان پہنچ چکا ہے۔

سینئر تجزیہ کار شہزاد چوہدری نے کہا کہ اگر حکومت چاہے گی تو وہ ضرور عدالتی حکم کی تعمیل کر سکے گی،وہ ریاست سے بڑے نہیں کہ حکومت انہیں نہ پکڑ سکے لیکن دھرنے کے اکیس دن تک حکومت اور عدالت دونوں ہی خاموش رہی تھیں اور جب معاہدے کے تحت وہ چلے گئے تو اب ان کیخلاف کیس بنایا جارہا ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کیس میں عدالت کو اب مداخلت کی ضرورت ہے لیکن اگر قانون شکنی ہوئی تھی تو حکومت کو چاہئے کہ انہیں پکڑے۔

سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ عدلیہ کے حکومت کی تعمیل کرنے کیلئے دل گردے کی ضرورت ہے اور انہیں پکڑنا ممکن نہیں ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا اور اتنا کڑو وقت1970میں آیا تھا، اس وقت بھی پاکستان سے محبت کرنے والوں نے دل جمائی سے پاکستان کو نقصان پہنچایا تھا۔

ان کا کہنا تھا دھرنے سے معاہدہ کرانے والے ضامنوں کا جب جسٹس شوکت صدیقی نے نوٹس لیا تھا تو خود ان ہی کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں چلا گیا۔

سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم نے کہا کہ دھرنا ختم کرانے کیلئے حکومت نے سر نگوں کیا اور پنجاب حکومت نے انہیں وہاں سے جانے دیا تھا، ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے پر عملد رآمد کرائے اور اگر نہ کراسکیں تو انہیں حکومت کرنے کا بھی اختیار نہیں پھر چاہئے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ عہد ہ چھوڑ دیں، ان کو اگر ووٹ ٹوٹنے کا خطرہ لاحق ہے تو فوری مستعفی ہوں۔سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ قانون سب کیلئے ایک ہونا چاہئے عدلیہ کے حکم کی تعمیل بھی ہونی چاہئے لیکن حکومت گرفتاری عمل میں نہیں لاسکتی، وہ ان کو کیسے گرفتار کرے جن سے ڈی چوک پر سعد رفیق اور طلال چوہدری معاہدہ کر کے آئے، فیض آباد مظاہرین کو کیسے گرفتار کرسکتی ہے کہ جس پر وزیر داخلہ احسن اقبال کے دستخط موجود ہوں اور جس کے تحت ان پر سے مقدمات ختم ہوں گے اور درجہ چہارم فہرست سے کارکنوں کو بھی نکالا جائے گا، اس وقت حکومت اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے یہاں اوپر والوں کو چھوٹ دی جاتی ہے نام ای سی ایل میں نہیں ڈالے جاتے۔

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ حکومت عدالتی فیصلے کی تعمیل میں تاخیر کرے گی جس سے توہین عدالت کا سامنا بھی ہوسکتا ہے دوسر ا یہ کہ انہیں خطرات بھی ہیں جس کی واضح مثال نواز شریف اور خواجہ آصف کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہیں، وہ اس لئے بھی بچنا چاہیں گے کہ آگے کہیں مزید حالات خراب نہ ہوجائیں۔

پروگرام میں پوچھے گئے دوسرے سوال کہ راؤ انوا ر کہاں ہیں کا جواب دیتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ راؤ انوار کو اگر گرفتار کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں لیکن نہ کرنا چاہیں تو اس کی وجوہات بہت ہوسکتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جو شخص خطو ط لے کر آتا ہے اس سے پوچھا جائے راؤ انوا ر کہاں ہیں، دوسر ا یہ کہ سب جانتے ہیں راؤ انوار کہاں ہیں لیکن خاموشی اختیار کرکے بیٹھے ہیں،خدشہ ہے کہ وہ اس وقت ملک میں موجود نہیں ہیں اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سمندری راستے سے ملک سے فرار ہوئے ہیں یا پھر ہوائی جہاز کے ذریعے گئے ہیں ، یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ وہ سیاسی سہولت کاروں کے پاس ہیں یا غیر سیاسی سہولت کاروں کے پاس ہیں۔

سینئر تجزیہ کا ر امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ یہاں جو جس کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے وہی اس کی حفاظت کرتا ہے ، سب جانتے ہیں کہ مشرف کو کس ملک سے باہر بھیجا گیا ، راؤ انوار کراچی آپریشن میں بندہ مار گروپ کے ہیڈتھے، وہ اس ماورائے قتل میں اکیلے نہیں تھے، ان کا کہنا تھا کہ پولیس ان کا ادارہ ہے اور وہی ان کی محافظ بھی ہوسکتی ہے ، چاہئے کہ چاروں صوبوں کے آئی جیز کو پکڑا جائے اور ان سے تفتیش کی جائے۔

سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ وہ نہیں جانتے راؤ انوار کہاں ہیں اور نہ کبھی یہ کہا تھا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں ، جس طرح نوا زشریف اور شہباز شریف کی تصاویر ڈیٹ شیٹ میں شامل ہوسکتی ہے اس طرح راؤ انوار کے خطوط بھی نصاب میں شامل ہوسکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جس ملک میں اسامہ جیسے دہشتگردچھپے رہے ہوں وہاں کچھ بھی ممکن ہے، یہاں اتنی محفوظ پناہ گاہیں ہیں کہ راؤ انوار چاہے تو پوری زندگی روپوشی میں گزار سکتا ہے۔

سینئر تجزیہ کار حسن نثار نے کہا کہ راؤ انوار ایک تجربے کار قاتل مجرم ہے، 22کروڑ کے ملک میں اگر کوئی غائب ہونا چاہئے تو اسے کوئی نہیں پکڑ سکتا۔سینئر تجزیہ کار شہزاد چوہدری نے کہا کہ راؤ انوار کی دو تصاویر سامنے آچکی ہیں ، تشویش اب یہ ہے کہ جہاں سے شاہ رخ جتو ئی باہر گیا وہیں سے راؤ انوار بھی تو باہر نہیں گیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ مہرے ہیں جنہیں ریاست نے خوب استعما ل کیا ہے، جس کے ذریعے اپنے مقاصد حل کرائے جاتے ہیں، یہ جہاں کہیں بھی ہیں انہیں پیسوں کی ضرورت ہے۔

سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیاز ی نے کہا کہ راؤ انوار کو پاکستان سے زیادہ محفوظ پناہ گاہ کوئی نہیں مل سکتی، ادارے طے کرلیں کہ اسے پکڑنا ہے تو وہ پکڑ سکتے ہیں کیونکہ ادارے تو بھوسے سوئی بھی تلاش کرلیتے ہیں۔

پروگرام میں پوچھا گیا تیسر ا عمران خان کا یہ کہنا کہ سوال زرداری کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا تو شیشے میں اپنی شکل کیسے دیکھوں گا؟ کا جواب دیتے ہوئے سینئر تجزیہ کارحسن نثار نے کہا کوئٹہ معاملے کو عمران خان کے بیانیے سے گڈ مڈ کرنے کی دو ہی وجوہات ہیں ایک یا تو منافقت ہے یا پھر بند ہ معصوم بہت ہے، عمران خان ان سے اتحاد نہیں کریں گے۔سینئر تجزیہ کار حفیظ اللہ نیاز ی نے کہا کہ عمران خان نے ابھی تک بغیر سپورٹ کے سیاست کی ہی نہیں ہے،ان کی اپنی سیاست نہیں کہتے ہیں وہ ا بھی بھی کہتے ہیں کہ اداروں کے پیچھے کھڑے ہیں، منافقت کا یہ کھیل عام آدمی بھی جانتا ہے، ان کو چاہئے کہ یہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا بند کردیں۔

سینئر تجزیہ کارامتیاز عالم نے کہا کہ یہ عمران خان کی یہ منافقانہ بات ہے کہ وہ ان سے اتحاد کے بعد انکار کر رہے ہیں اور معصومانہ فیکٹر یہ ہوسکتا ہے کہ ان سے اتنا بڑا ہاتھ ہوگیا اور انہیں خبر نہ ہوئی ، ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کا منظر ٹریلر تھا، عمران خان اور آصف زراداری کوہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

سینئر تجزیہ کارمظہر عباس نے کہا کہ سینیٹ میں پی پی کا ساتھ دینے کیلئے خود تحریک انصاف میں بہت بحث ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ بڑی سیاسی جماعتوں کو سولو فلائٹ کا ہی سہار ا لینا چاہئے، ذولفقار بھٹو نے بدترین حالات میں 1977میں کسی سے اتحاد نہیں کیا تھا۔

سینئر تجزیہ کارشہزاد چوہدری نے کہا کہ سینیٹ کا منظر ضمنی مقصد تھا لیکن حتمی جنگ یہ تنہا لڑیں گے، الیکشن کے نتائج کے بعد ایک نئی حقیقت سامنے آئے گی اور نئی حکمت عملیاں سامنے آئیں گی۔

سینئر تجزیہ کارارشاد بھٹی نے کہا کہ اپوزیشن نے اتحاد کر کے نظام کیلئے اچھا کام کیا ہے اور اس سے حکومت پر دباؤ رہے گا، آئندہ پی پی اور تحریک انصاف ایوان میں بھی اتحاد کرسکتی ہے لیکن انتخابی اتحاد ممکن نہیں ہے۔

تازہ ترین