• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی چند روز پہلے ہمارےگھر میں بحث جاری تھی کہ پاکستان میں اتنی تیزی سے مہنگائی کیوں ہوئی، کیسے ہوئی؟ شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ دنیا کے سستے ترین شہروں کی خبریں آئی تھیں۔ میں اس بحث میں بالکل خاموش تھا جیسے مجھے کچھ پتہ ہی نہ ہو، بحث کے اختتام پر میرے چھوٹے بھائی نے میرے سامنے ایک کاغذ رکھا، اس کاغذ پر اشیائے ضرورت کے چند نام لکھے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی سوال یہ تھا کہ کیا یہ چیزیں 1960ء میں تیس روپے میں مل جاتی تھیں۔ سب افراد میری طرف متوجہ تھے سو میں نے اشیائے ضروریات کے ناموں کو بغور پڑھا اور پھر ان سے کہا کہ یہ تمام چیزیں 1960ء میں صرف دس روپے میں مل جاتی تھیں۔ جب سب حیران ہوئے تو میں نے اس کی چند وجوہات بیان کیں، سب سے بڑی وجہ ڈالر اور روپے کا مقابلہ تھا۔ 1960ء میں ڈالر اور روپے میں زیادہ فرق نہیں تھا، اس زمانے میں پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل تھا۔ اس زمانے میں پاکستان جرمنی سمیت کئی ملکوں کو قرضے دیا کرتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان میں خوشحالی برس رہی تھی یہ وہ دور تھا جب امریکی صدر پاکستانی صدر کے نازنخرے برداشت کرتا تھا بلکہ پاکستانی صدر کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا۔ اگر آپ پاکستان کے پہلے پچیس تیس سالوں کی معیشت پر نگاہ ڈالیں تو آپ کو بہت سی باتوں کا اندازہ ہو جائے گا، آپ کو حیرت ہوگی کہ پاکستان ایسے ملکوں میں شامل تھا جنہوں نے جاپان کو قرض دیا، آپ کو مزید حیرت اس بات پر ہوگی کہ پاکستان نے جاپان کو دیا گیا قرضہ معاف کردیا تھا۔ پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو سمجھنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ 1951ء میں امریکی ڈالر ایک روپے کا تھا یعنی روپیہ اور ڈالر برابر تھے۔ 1972ء میں یعنی جب پاکستان کا ایک حصہ اس سے الگ ہو چکا تھا اس وقت بھی ڈالر صرف تین روپے کا تھا۔
ساٹھ کی دہائی میں ڈیمز بن رہے تھے، ترقی ہورہی تھی، اشیائے ضروریات بہت سستی تھیں، اعلیٰ شاعری اورموسیقی ترتیب پا رہی تھی، ہمارے کھیل کے میدان بھی آباد تھے، دانش گاہیں بھی آباد تھیں، لوگ زیادہ لبرل تھے۔ اس عہد میں سڑکوں کو مسلمان ہونے کا شوق نہیں تھا۔ اس حسین دور میں مذہبی منافرت نہیں تھی، فرقوں کے نام پر قتل و غارت نہیں تھی اور شاید مولویوں کے ریٹ بھی نہیں تھے۔ اس خوبصورت زمانے میں نام دیکھ کر قتل نہیں کئے جاتے تھے، ملاوٹ اس عہد میں نہیں تھی، لوگ رشوت کے نام سے واقف نہیں تھے، ظلم اور زیادتی کے محافظ بھی نہیں تھے۔ لوگ گھروں کو تالے لگانا معیوب سمجھتے تھے، شہروں میں سینما کلچر بھی تھا۔ لوگ پڑھے لکھے لوگوں کی قدر کرتے تھے، اس زمانے کی بیوروکریسی میں اردو بولنے والے زیادہ تھے، وہ اپنے فرائض کو سیاستدانوں کے غلط فیصلوں کے تابع نہیں کرتے تھے، اس عہد میں احد چیمہ نہیں تھے، اس دور میں فواد حسن فواد جیسے کردار بھی نہیں تھے، اس عہد میں قدرت اللہ شہاب جیسے ستارے تھے، مختار مسعود جیسے لوگ تھے، مصطفیٰ زیدی جیسے کمال کے شاعر بیوروکریسی کا حصہ تھے پھر وہ زمانہ آگیا، ہمیں کسی کی نظر لگ گئی، پہلے منظور جھلا جیسا خوبصورت گیت لکھتا تھا پھر ہمارا مقدر اتنا ہار گیا کہ یہاں کا گیت نگار خواجہ پرویز بن گیا۔
خواتین و حضرات! ہماری بدقسمتی کا زمانہ کہیں ستر کی دہائی کے وسط سے ہی شروع ہوگیا تھا، پرائیویٹ اداروں کو نیشنلائز کرنے سےسرمایہ کار بھاگ گیا، بدقسمتی سے ہماری سیاست میں بھی انتہا پسندی زور پکڑنے لگی، ہمارے ادارے یونین کی نذر ہونے لگے۔ پھر خرابیوں کو دوام بخشنے کیلئے ضیاء الحق نازل ہوگیا جس نے نظریات کو مارنا شروع کیا، اس عہد میں فرقوں کے نام پر قتل و غارت کا آغاز ہوا۔ لوگ ہمیں ازسرنو مسلمان کرنے پر تل گئے۔ پھر شاعری ا ور گیتوں کو زنگ لگ گیا۔ ضیاء الحق نے جو نااہل اور نکمے سیاست میں اتارے تو بربادیوں کا سفر شروع ہوگیا۔ پچھلے تیس پینتیس برسوں کی جھولی میں بربادیوں کے سوا کچھ نہیں۔ 80ء کی دہائی سے شروع ہونے والی خرافات نے پورے معاشرے کو برباد کردیا ہے، تیس پینتیس برس سے نکمے اور نااہل ہم پر مسلط ہیں، ان نکموں کا سارا زور دولت اکٹھی کرنے پر ہے، انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں زہر گھول دیا ہے، آج ہر ادارہ بربادی کا رونا رو رہا ہے، رشوت کا بازار گرم ہے، ایوانوں میں بولیاں لگ رہی ہیں، معصوم بچیوں سے زیادتیاں ہورہی ہیں، معاشرے میں عدم برداشت ہے، ملاوٹ عام ہے، ظلم عروج پر ہے، ضیاء الحق کی روحانی اولاد دھمکیوں پر اتر آئی ہے، نااہل اور نکمے افراد نے جہاں ملک اور معاشرہ برباد کیا وہاں اپنی دولت کے انبار کھڑے کرلئے۔ جو لوگ نائب تحصیلدار کے امتحان میں فیل ہوگئے تھے، ہماری بدقسمتی کہ وہ ملک کے اعلیٰ ترین مناصب تک جا پہنچے، یہ انہی کی کارکردگی ہے کہ تعلیم اور صحت تباہ ہوگئے، تعلیم کی حالت یہ ہے کہ پنجاب میں پندرہ یونیورسٹیوں میں مستقل وی سی نہیں ہیں، ایڈہاک ازم پر نظام چلانے کی کوشش کی جارہی ہے، اب وہ نکمے اورنااہل انقلابی بننے کی کوشش کررہے ہیں۔

میں بہت سوچتا تھا کہ بربادیوںکا یہ سفر کیوں ہوا، پاکستان کی ترقی کیوں رک گئی، پاکستان میں عزت کا معیار دولت کیسے بن گئی، معاشرے میں خرابیاں عروج پر کیسے پہنچ گئیں، اتنی مہنگائی کیسے ہوگئی، قرض دینے والا ملک اتنا مقروض کیسے ہوگیا، ظلم کیسے قائم ہوا، عدم برداشت کیسے بڑھی، کھیتوں تک بربادیاں کیسے پہنچ گئیں؟ میں نے تاریخ سے جواب مانگا تو جواباً ایک واقعہ ملا۔ آپ بھی سن لیجئے۔ آپ جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کلیم اللہ تھے، ایک روز حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے پوچھا کہ ’’اے اللہ! جب تو ناراض ہوتا ہے تو ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ تو ناراض ہے، آخر تیرے ناراض ہونے کی کچھ نشانیاں تو ہوں گی، مجھے ان نشانیوں سے آگاہی چاہئے‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے سوال کے جواب میں فرمایا ’’اے موسیٰ ؑ! جب میں ناراض ہوتا ہوں تو میری تین نشانیاں ہیں، میں بے وقت بارشیں برساتا ہوں، میں معاشرے میں بخیل افراد کو دولت دیتا ہوں، سخیوں کو دولت عطا نہیں کرتا، میں لوگوں پر حکمرانی کیلئے نکمے اور نااہل افراد کو مسلط کردیتا ہوں‘‘۔
اس ایک واقعہ کے بعد مجھے اپنی بربادیوں کی سمجھ آگئی۔ یہی ہماری سزا تھی، ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوا، ہم پر بے موسمی بارشیں ہوئیں، ہمارے معاشرے میں چن چن کر بخیل لوگوں کو دولت دی گئی، ہمارے معاشرے میں سخی کم ہوتے گئے، ہم پر حکمرانی کیلئے نالائق، نااہل اور نکمے مسلط کردیئے گئے، سارابگاڑ اسی سے ہوا، ہم پر رحمتوں کا نزول ختم ہوگیا۔
مگر میرے وطن کے پیارے لوگو! مایوس نہیں ہونا، حالات بتا رہے ہیںکہ تمہاری یہ سزا ختم ہونے والی ہے، تم پر مسلط نااہل، نالائق اور نکمے رخصت ہورہے ہیں، اب بخیل افراد سے دولت چھین لی جائے گی، موسم اپنے وقت پر بارشیں برسائےگا، اتنی سخت سزائیں ستر سالوں میں آپ نے نہیں دیکھی ہوں گی جواب تمہارے لٹیروں کو ملنے والی ہیں، بس اب یہاں سے ظلم کے راج کا جنازہ اٹھنے والا ہے، آپ کو سخی سخاوت کرتے ہوئے نظر آئیں گے، آپ کو اپنے ادارے درست ہوتے ہوئے دکھائی دیں گے، آپ کو حقیقی معنوں میں ترقی نظر آئے گی، ظلم کا نظام آخری سانسیں لے رہا ہے، بس کچھ ہی دیر میں اندھیر نگری دریا برد ہونے والی ہے، تھوڑا سا صبر کہ؎
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین