آئندہ عام انتخابات کا دنگل جوتا کھانے اور جوتا مارنے والو ں کے درمیان ہوگا یا جوتا بنانے والی کمپنیوں کے درمیان۔ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جو سیالکوٹ میںخواجہ آصف کے منہ پر سیاہی پھینکنے اور لاہور میں بڑے میاں صاحب کی طرف جوتا اچھالنے اور عمران خان پرجوتا پھینکنے کی کوشش کرنے والوں نے ہماری طرف اچھال دیا ہے جس کا جواب بروقت نہ ملا توپھر یقین رکھئے کہ عام انتخابات میں بھی جمہوریت کا منہ سینیٹ کے انتخابات کی طرح کالا ہونے والاہے۔ یہ منہ ماری سے جوتا باری تک کی سیاست کا سفر ہمارے اخلاقی و سیاسی زوال کی کھلی نشانی ہے جو اب ہمارے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بننے اور ہماری امیدوں کو کچلتی تاریک راہوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ سیاسی لیڈروں کی سرعام تذلیل قانون کے فیصلوں سے پہلے فیصلوں کی تصدیق ، ہماری بکھرتی سوچوں کی فصیل بنتی جارہی ہے۔ ہم نے قیام پاکستان سے اب تک جو کچھ بویا، کھویا اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ آج ہم ایک اَن جانی منزل کی جانب بڑھے جارہے ہیں جس کا انجام اچھا نہیں۔ سیاسی اصطبلوں میں نئے گھوڑوں کی نسل کُشی کا عمل جاری ہے۔ اعلیٰ نسل کے گھوڑے ایک اصطبل سے دوسرے اصطبل منتقل کئے جارہے ہیں۔ عام انتخابات سے قبل جونئی سیاسی نسل کشیدکرنے کی کوشش کی جارہی ہے معاف کیجئے گا جوتے کھانے کے لائق ہی ہے۔ ان ضمیر فروشوں سے کوئی پوچھے کہ کتنی بار آپ نے ہمارے جذبات سے کھیلنا ہے۔ کیوں بار بار اس قوم کو دھوکہ دیتے ہیں، یہ مکافات عمل ہے کہ جوتوں کا کھیل جوتوں پر ہی ختم ہوتا ہے۔ ملک میں ’’باندرکلّے‘‘ کا جو کھیل شروع کر دیا گیا ہے اگر اسے بروقت روکا نہ گیا تو کسی کی بھی ’’باندر‘‘ بننے کی باری آسکتی ہے اور وقت آنے پر ٹارگٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں کئی شرفاء، معززین، کھلاڑی ، پنچایتی ’’باندر‘‘ بن چکے ہوں گے مگر دوسروں کو باندر بنتے دیکھ کر خوش فہمی کا شکار ہونے والوں کو اپنا گریبان بھی تھامے رکھنا ہوگا وگرنہ جب دلیل ختم ہو جائے تو جوتے کا سہارا ہی لیا جاتاہے۔ الفاظ ختم ہو جائیں تو چھڑی تھام لی جاتی ہے۔ چھڑی کی چھیڑ ایک بار چھڑ گئی تو بات بہت دور تک جائے گی اوربڑے بڑے ’’چھڑ ‘‘ جائیں گے۔ سیاست و اخلاقیات کا جو جنازہ فریقین کی طرف سے نکالاجارہا ہے وہ سیاسی اقدار کے دفن ہونے کے بعد غدر مچا دے گا۔ پھر ہرطرف ہاہا کار مچے گی، شوروغوغا ہوگا، غل غپاڑہ کرنے والے سرعام پکڑے جائیں گے۔ اِدھر مال روڈ،اُدھر شاہراہ دستورپر ضمیر کی نیلامی ہوگی۔ لوٹے گھمانے کا جو کھیل پنڈی، بنی گالا اور لاڑکانہ سے شروع ہوا ہے وہ بلوچستان سے جنوبی پنجاب تک پھیلے گا ، سب جانتے ہیں کیا چل رہا ہے مگر کون چلا رہا ہے اس پرقیاس آرائیاں جاری ہیں۔ لوٹا گھمانے والا جادوگر کہیں چھپا بیٹھا ہے اور اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ سینیٹ انتخابات پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں اس نے اپنی مہارت کالوہا منوایا ہے۔ اب اس کی نظریں عام انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب سمیت ان علاقوں پر ہیں جہاں گھٹنوں تک ریت ہی ریت ہے یا پھر پھسلن زیادہ، جن موقع پرست جاگیرداروں، وڈیروں،سرمایہ داروں کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں وہ کسی بھی وقت گھوم سکتے ہیںیا آسان الفاظ میں گوروں کے کتے نہلانے والوں کی نسل ابھی باقی ہے۔ انہیں چابک یا لالچ کے زور پر گھمانا آسان ہے۔ بڑے بڑے گدی نشینوں کو رام کرنا بھی کچھ مشکل نہیں۔ ہم نے ماضی میں سیاسی اکھاڑوں کے بڑے بڑے نامور پہلوانوں کو گھٹنوں کے بل گرتے دیکھا ہے۔ ایسے میں اگر کچھ لوگوں نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو ان سے قانونی اور اخلاقی طور پر نمٹا جائے نہ کہ جوتے ہاتھ میں اٹھا لئے جائیں۔ جوتوں کی کچہری لگانے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس ملک کی عدلیہ ابھی اپنا کام کررہی ہے۔ جوتوں کی کچہری لگانا کیا عدلیہ کی توہین اور انسانیت کی تذلیل نہیں؟
حالات ایک بار پھر ماضی قریب کی جانب اشارہ کرتے ہیں جب گزشتہ عام انتخابات سے قبل شرپسندوں نے خوف کی ایک ایسی فضا قائم کی کہ پیپلز پارٹی کا بحیثیت ایک سیاسی جماعت عوام سے براہ راست رابطہ مشکل ہوگیا۔ دھمکی آمیز بیانات اور عملی طور پر ایسے واقعات رونما ہوئے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار آزادی سے اپنی انتخابی مہم چلا نہ پائے۔ حتّٰی کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید موسیٰ گیلانی کو انتخابی مہم کے دوران اغوا کرلیا گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی سیاسی طورپر پہلے ہی زوال کا شکار ہو چکی تھی مگر پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابی میدان سے اس کا مکمل صفایا کرنے کے لئے باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خوف کی فضا قائم کی گئی۔ کچھ ایسی ہی صُورت حال آج ن لیگ کو درپیش ہے۔ شریف برادران یقیناً اپنے سیاسی کیریئر کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں اور جوتا باری کی یہ مہم بھی یقینا ً سیاسی رہنمائوں کی تذلیل اور خوف کی فضا پیدا کرنے کے لئے شروع کی گئی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ شطرنج کے ماہر کھلاڑیوں نے باندر کلّے کا کچھ ایسا ماحول رچایا ہے کہ ’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔‘‘ یہی وہ وقت ہے جہاں تمام سیاسی رہنمائوں کو عزت و وقارقائم رکھنے کے لئے عزم و ہمت ، حوصلے ، وضع داری، اخلاقیات کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ بڑے میاں صاحب آج کل جس صورت حال سے دو چار ہیں یقیناً کوئی حوصلہ افزا نہیں۔ مجھے کیوں نکالا؟کے بعد اب انہیں کون ہے یہ سنجرانی؟ اور کس نے اس کے گھر کا راستہ دکھایا؟ کے سوالات درپیش ہیں۔ اس موقع پر مجھے محترمہ بے نظر بھٹو کی وہ انتخابی مہم یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے ’’یااللہ یا رسول …، بے نظیر بے قصور‘‘ کانعرہ بلند کیا۔ یہ وہ دور تھاجب پیپلز پارٹی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کیا گیا اور آصف علی زرداری ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘کے نام سے مشہور ہوئے۔ بے نظیر بھٹو اس نعرے کی بنیاد پر پوری انتخابی مہم کے دوران صفائیاں پیش کرتی رہیں مگر عوام نے اس نعرے کو قبول کرنے کے بجائے اسے اعتراف جرم سمجھا اور پیپلز پارٹی کو ان انتخابات میں بُری طرح شکست ہوئی آج وہی غلطی میاں محمد نواز شریف دہرارہے ہیں۔ اگر میاں برادران ان سوالات کی بنیاد پر اپنی انتخابی مہم چلائیں گے تو سمجھئے جوتا ساز کمپنی کامیاب ہوگئی۔ یہ جوتا ساز کمپنی سیاست دانوں کو نیچا دکھانے کے لئے مختلف سائز کے جوتے بنائے بیٹھی ہے جس سے بچنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین خود احتسابی کے عمل سے گزریں ۔ اپنی سیاسی کمزوریوں پر پردہ پوشی کے بجائے اپنی غلطیوں کااعتراف کریں اور کھلے دل کے ساتھ عوام میں اپنا نظریہ اورسوچ پھیلائیں۔ بصورت دیگر سیاسی جماعتوں کا جو زوال شروع ہوا ہے وہ اپنے انجام کو پہنچتا نظر آرہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ وہ دن آئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)