• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 کیا قیامت قریب آگئی ہے؟

اس وقت میں ترکی کے شہر استنبول میں ہوں ابھی کچھ ہی دیر قبل مجھے میرے ایک شناسا آفاق احمد شمسی نے ایک طویل مضمون واٹس ایپ پر بھیجا ہے میں اس مضمون کو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کر رہا ہوں۔
کیا ہم نے بحیثیت مسلمان اور پاکستانی سوچا ہے کہ آخر شام، یمن میں یہ خون ریزی کیوں ہو رہی ہے کیوں شام میں خصوصاً مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے آخر یہ کون لوگ ہیں کیوں یہ دہشت گردی کر رہے ہیں حیرت اس بات پر بھی ہے کہ مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں مروایا جا رہا ہے۔ افغانستان میں اور عراق میں جو لوگ قتل و غارت میں مصروف ہیں ان میں بھی صرف طالبان
کو دہشت گرد کہا جاتا ہے جبکہ شام میں جو لڑائی لڑی جا رہی ہے وہ بھی دو مسلمان فرقوں کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔ یوں تو پورا شام گزشتہ سات سالوں سے بربریت کی علامت بنا ہوا ہے، لیکن غوطہ ایک ایسا شہر ہے جس کا محاصرہ کبھی بھی نہیں ٹوٹا. شامی حکومت کے اس قتل عام میں دوعالمی دہشت گرد ملیشیا اس کے ساتھ شریک ہیں جبکہ انہیں روسی افواج اور فضائیہ کی مدد حاصل ہے تمام عالمی طاقتوں کی ایک سازش ہے کہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کو بلکہ تمام مسلم امہ کو مسلکی بنیاد پر تقسیم کیا جائے اورپھر اس تقسیم کی بنیاد پر پیدا ہونے والی نفرتوں کو زندہ رکھا جائے. اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ عراق کی منظم فوجی طاقت تھی جو ایران اورعرب ممالک کے درمیان ایک بفرزون کا کام کرتی تھی. ایران اور عراق دونوں برابر کی فوجی صلاحیت رکھتے تھے. امریکی افواج کے ذریعے ایک جھوٹے بیانیہ پر کہ صدام کے پاس کیمیائی ہتھیار ہیں، حملہ کیا گیا اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی. امریکی افواج قابض ہوئیں تو ایران نے عراق کی ایک مکتب فکر آبادی کو مزاحمت کرنے سے روک دیا جس کے نتیجے میں امریکہ نے انہیں اپنی سرپرستی میں عراق کا اقتدار سونپ دیا. یہی نہیں بلکہ اس حکومت کے ساتھ مل کرفلوجہ سے لے کر تکریت اور موصل میں القاعدہ کا نام لے کردوسرے مکتب فکر کی آبادی کا قتل عام کیا گیا. یوں جنوب میں وہ تمام آبادیاں جہاں ایک فرقے کی اکثریت تھی وہاں سےدوسرے مکتب فکرکے لوگ ہجرت کرکے شمال کی جانب چلے گئے. وہاں انہیں ایک اور عفریت کا سامنا کرنا پڑا جسے دولت اسلامیہ اور داعش کہتے ہیں. مسلمانوں کے جذبہ انتقام سے جنم لینے والی یہ دہشتگرد تنظیم داعش جسے ہر مسلمان دہشت گرد کہتا ہے، اس تنظیم کا اثرورسوخ شام کے علاقے رقہ اور دیرالزور تک بھی پھیل گیا تھا. اس تنظیم کو تو مسلم امہ نے دہشت گرد کہا لیکن کسی نے شام میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والی تنظیموں کو کبھی قاتل اور دہشت گرد نہیں کہا۔
حالانکہ یہ دونوں تنظیمیں بیرون ملک سے القاعدہ کی طرح شام میں آ کر مسلمانوں کو قتل کر رہی ہیں. جب عراق کا جنوبی علاقہ زیر اثر آگیا تواب شام سے لبنان تک ایک پورا خطہ ‘‘کاریڈور’’ چاہئے تھا ،اس مقصد کے لیے شام کےدیگر مسلمانوں کو شمال کی جانب دھکیلنا شروع کیا گیا. ادلب چار لاکھ آبادی کا شہر ہے وہاں اس وقت چالیس لاکھ مسلمان ہجرت کرکے آچکے ہیں.
شام کے چار بڑے شہر تھے جن میں ایک فرقے کے لوگ آباد تھے. کفریا اور فواء میں دوسرے مکتب فکر کی اکثریت تھی اور مدایا اور زبدانی میں ایک معاہدہ عمل میں آیا، جس کے تحت مدایا اور زبدانی سے ایک مکتب فکر کی آبادی کو ادلب منتقل کیا گیا اور کفریا اور فواء سے دوسرے مکتب فکر کے لوگوں کو حلب بھیجا گیا. حلب کا کنٹرول اس سے پہلے ہی حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا تھا. اب لبنان، شام، عراق اور ایران کے کاریڈور میں صرف ایک ہی رکاوٹ بچی تھی اور وہ ہے غوطہ. اس شہر کا گزشتہ پانچ سالوں سے محاصرہ جاری ہے. اس شہر کے مکینوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مصداق ‘‘ جب پیلے جھنڈوں والے مصر میںداخل ہوجائیں تو اہل شام کو زمیں دوز سرنگیں کھود لینی چاہئیں’’ (السنن الواردہ فی الفتن)، غوطہ کے شہریوں نے ہر گھر میں زیر زمین پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں اور پورا شہر زیر زمین سرنگوں کی مدد سے شامی فوج اور اس کے اتحادیوں اور روسی افواج کے محاصرے کا پانچ سال سے توڑ کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بم باری سے بچے اور خواتین نشانہ بن رہے ہیں جو زیر زمین اپنی رہائشگاہوں سے گھبرا کر باہر نکل جاتے ہیں ان کی مائیں انہیں واپس لانے کے لیے انہیں پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے جاتی ہیں جو پھر کبھی واپس نہیں آتیں۔ ان ظالم قوتوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مقامی آبادی کو یہاں سے نکلنے پرمجبور کیا جائے یاپھر اسی شہر میں ہی ان سب کو موت دے دی جائے. محاصرے سے تو موت واقع نہ ہوسکی اب روزانہ روسی اورشامی ایئرفورس کی بمباری جاری ہے، لیکن اس شہر کے لوگوں نے رسول اکرمؐ کی حدیث کے مطابق چونکہ ہر گھر میں زیر زمین پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں اس لیے اب اچانک زد میں آنے والے بچے اور عورتیں یا گھر میں سوئے ہوئے لوگ ہی جام شہادت نوش کررہے ہیں. اس قدر بمباری کے باوجود شامی حکومت اور اس کے اتحادی شہر میں داخل نہیں ہوسکے. یہ وہ سرزمین ہے جہاں آخری معرکے میں مسلمانوں کا ہیڈکوارٹر ہوگا، جس کے قرب و جوار میں سیدنا امام مہدی کی قیادت میں مسلمانوں نے دجالی طاقتوں سے جنگ کرنا ہے، جہاں سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا. وہاں کے مسلمانوں کے قتل عام میں جو کوئی روس اور شامی حکومت کا ساتھ دیتا ہے وہ بھی دہشت گرد ہے کہ ان کے ہاتھوں سے بھی بے گناہ مسلمان قتل ہورہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین