• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں قرضہ لیکر پاکستان میں زمین خریدنے والا کاغذات ٹرانسفر کے انتظار میں انتقال کرگیا

لندن( سعید نیازی) بہتر زندگی کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر پردیس میں جا بسنے والے افراد جوں ہی کسی قابل ہوتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے وطن میں گھر بنائیں اور اپنے بہن بھائیوں اور عزیز واقارب کیلئے کچھ کریں لیکن بعض اوقات وطن کی محبت میں سر شار ایسے افراد کو ایسا سبق ملتا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا نام سن کر ہی کانوں کو ہاتھ لگالیتے ہیں۔ پاکستان میں زمین خرید کر مشکل میں پھنس جانے کی ایک اور دردناک کہانی سامنے آئی ہے۔ لندن کی رہائشی بیوہ خاتون روبینہ بٹ کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نے 2004میں پاکستان میںایک بااثر شخصیت سے 4 کنال جگہ خریدی تھی 75لاکھ فی کنال کے حساب سے دوکنال زمین کے پیسے ڈیڑھ کروڑ روپیہ اس وقت ادا کردیئے گئے تھے اور ان کے شوہر نے اس شخص کو ہدایت کی تھی کہ زمین کے کاغذات میری بیوی کے نام پر بنائے جائیں۔ روبینہ بٹ نے کہا کہ رقم لینے کے بعد بہانوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا اور مختلف باتیں کرکے زمین ٹرانسفر کرنے کی نئی نئی تاریخیں دی جاتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے شوہر ضیا الدین بٹ زمین کیلئے رقم برطانیہ سے قرضہ لیکر گئے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ اس پیسے سے علامہ اقبال ائر پورٹ لاہور کے قریب خریدی گئی اس جگہ پر ہوٹل تعمیرکرینگے جس سے خاندان کے کئی افراد کو روز گار بھی ملے گا۔ لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی ہر مرتبہ یہ ہی کہاجاتا تھا کہ کاغذات تیار ہورہے ہیں اور جلد زمین آپ کے نام پر ٹرانسفر کردی جائے گی۔ ایک مرتبہ تو دسمبر2007میں  ہمیں  جلدی میں بلوایا گیا اور زمین اپنے نام کرانے کا چکر میں ہم انتہائی مہنگے ٹکٹ خرید کر پاکستان پہنچے لیکن پھر بھی ہمارے ساتھ دھوکہ کیا گیا 2009میں ہمیں یہ احساس ہو گیا کہ وہ شخص زمین ہماری نام کرنے کو تیار نہیں اور نہ ہمارا پیسہ ہمیں لوٹانے کو تیار ہے جب اسے مقدمہ کی دھمکی دی تو اس نے کہا کہ کوئی مائی کا لعل میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا آپ سے جو کچھ ہوسکتا ہے کرلیں، 2014 میں جب اس کے خلاف مقدمہ کیا تو انہوں نے ہمارا وکیل ہی خرید لیا اور مقدمہ خارج ہوگیا۔ اب ہم نے دوبارہ مقدمہ کیا ہوا ہے جس کی آئندہ پیشی 9اپریل کو ہوگی۔ رقم کی ادائیگی کی تمام رسیدیں اور سٹمپ پیپر ہمارے پاس موجود ہیں روبینہ بٹ نے بتایا کہ میرے شوہر کا یہاں کپڑوں کا کاروبار تھا لیکن زندگی بھر کی جمع پونجھی کو یوں لٹا دیکھ کر 2012میں ان پر فالج ہوا اور 2016میں وہ انتقال کرگئے۔ اب میں بیوہ اپنی چار بیٹیوں کے ساتھ انصاف کی منتظر ہوں، انہوں نے کہا کہ میرے شوہر نے زمین کی خریداری کیلئے برطانیہ سے جو قرضہ لیا تھا اس کے ہر ماہ تین ہزار 85پونڈ کی قسط بھی ہر ماہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے انصاف کے حصول کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اوورسیز پاکستانیز کمیشن کے کمشنر افضال بھٹی نے ان کی بہت مدد بھی کی ہے۔ لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم جب بھی کیس آگے لیجاتے ہیں تو بااثر مخالفین اسے رکوا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بھی درخواست دی تھی اور انہوں نے ایکشن بھی لیا تھا اس وقت لاہور میں اس زمین فروخت کرنے والوں نے ہمیں 5 کروڑ روپیہ دے کر خاموش ہونے کی درخواست کی تھی لیکن جو ں یہ وقت گزار اور معاملہ ٹھنڈا ہوا تو وہ بھی مکر گئے۔ انہوں نے کہا کہ جو زمین انہوں نے 75لاکھ کنال کی خریدی تھی وہ اب ایئر پورٹ بننے اور علاقے میں ترقیاتی کاموں کے سبب8کروڑ روپیہ فی کنال ہوچکی ہے۔ انہوں  نے کہا کہ میں نیب کے پاس بھی گئی تھی لیکن وہ بھی کیس کو آگے لے کر نہیں گئے۔ روبینہ بٹ نے کہا کہ میں اپنی بیٹیوں کی شادی کرنا چاہتی ہوں اور خود پر چڑھے قرضے اتارنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور حکومت کے اعلیٰ عہدیداران سے اپیل کی ہے کہ مجھے انصاف دلایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ اگر میرے ساتھ انصاف نہ ہوا تو اوورسیز پاکستانی کے لئے اپنے وطن میں سرمایہ کاری کا سوچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تو اپنے وطن کے ساتھ محبت کا یہ عالم ہے کہ جب ہم پاکستان جاتے ہیں اور طیارے میں یہ اعلان ہوتا کہ اب ہم پاکستان میں لینڈ کرنے والے ہیں تو میں وطن سے محبت میں رونا شروع کردیتی ہوں لیکن اب میرا وہاں جانا مشکل کردیا گیا ہے کچھ دھمکیاں دی جاتی ہیں بلکہ ایک مرتبہ لاہور میں میری رہائش گاہ پر فائرنگ بھی کرائی گئی۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ چیف جسٹس مجھے انصاف دلانے کےلئے اس بااثر شخصیت کا کوئی لحاظ نہیں کرینگے۔ انہوں نے کہاکہ اس پریشانی کے سبب نہ صرف میرے شوہر صدمہ کے سبب اس دنیا سے چلے گئے بلکہ میری ایک بیٹی بھی ڈپرشن میں مبتلا ہوگئی ہے۔

تازہ ترین