• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے بدترین نسلی بدسلوکی کانشانہ بنایا گیا، آسٹریلین مسلم کرکٹر عثمان خواجہ

لندن( نیوز ڈیسک) آسٹریلیا کے پہلے مسلمان کرکٹر عثمان خواجہ نے بتایا ہے کہ مجھے بدترین نسلی بدسلوکی کانشانہ بنایا گیا۔ بچوں کے والدین کی جانب سے نسلی بد سلوکی اور دشنام طرازی نے میرے عزم کو مزید تقویت بخشی اور میرا عزم زیادہ پختہ ہوتاگیا، عثمان خواجہ نے یہ باتیں 60منٹ پر مبنی انٹرویو کے دوران کہیں، انھوں نے کہا کہ بعض والدین سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر مجھے پاکی اور سیاہ فام کہہ کر پکارتے تھے۔والدین مجھے سیاہ فام ،کری بنانے والا کہہ کر طنزیہ انداز میںمجھے مخاطب کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن ان کے اس رویئے سے میرا عزم مزید مضبوط ہوتا چلاگیا۔دی میل نے یہ خبر دیتے ہوئے لکھاہے کہ سڈنی کرکٹ گرائونڈ میں 171رنز بنا کر انگلینڈ کو شکست سے دوچار کرنے والے مسلم کرکٹر نے جو 1991میں5سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ آسٹریلیا آیا تھابتایا کہ والدین کی جانب سے نسلی تعصب اوربہتان طرازی کی وجہ سے مجھے تکلیف تو بہت پہنچتی تھی لیکن اس سے میرا عزم راسخ ہوتا گیا۔عثمان خواجہ نے انٹرویو کے دوران یہ بھی بتایا کہ ان کی 22سالہ منگیتر کس طرح مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کرنے پر تیار ہوئیں،ان کی شادی اب اپریل میں متوقع ہے۔عثمان خواجہ نے بتایا کہ ان کے گھر کے بہت سے لوگوں کو یہ یقین نہیں تھا کہ وہ رنگدار ہونے کی وجہ سے کبھی آسٹریلیا کی قومی ٹیم میں اپنی جگہ بناپائیں گے۔انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں ان کامذہب اور عقیدہ ہی سب سے زیادہ اہمیت اوراولیت رکھتاہے،ان کی اہلیہ کاتعلق ایک راسخ العقیدہ مسیحی خاندان سے ہے ان دونوں کے درمیان رومان جولائی 2016میں امریکہ میں تعطیلات کے دوران پروان چڑھا،عثمان خواجہ نے بتایا کہ انھوں نے اپنی منگیتر پر مذہب تبدیل کرنے کیلئے دبائو نہیں ڈالا اورہمیشہ یہی کہا کہ اس بات کا فیصلہ خود ان کی اپنی صوابدید پر ہے۔اور راکیل نے مذہب تبدیل کرنے کافیصلہ گزشتہ سال اپنی مرضی اورکسی دبائو کے بغیر کیاہے۔ راکیل نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان پر مذہب تبدیل کرنے کے حوالے سے کوئی دبائو نہیں تھا اوریہ فیصلہ انھوں نے خود کیا ہے۔
تازہ ترین