• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

33 فیصد مسلم طلبہ برطانوی درسگاہوں میں ابیوز یا کرائم کا شکار

لندن (جنگ نیوز)نیشنل یونین آف سٹوڈنٹس (این یو ایس)کے سروے میں انکشاف ہوا کہ برطانیہ میں ایک تہائی مسلم سٹوڈنٹس کو ان کی درسگاہوں میں ابیوز یا کرائم کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلم طلبہ کو یقین ہے کہ اس کا محرک اسلاموفوبیا ہے۔ مسلم سٹوڈنٹس سروے کا آغاز2017ء میں ہوا تھا جس کا مقصد مسلمان طلبہ کے تجربات کو زیادہ سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ سروے میں برطانیہ بیسڈ 578مسلم طلبہ نے جوابات دیئے۔ سروے میں تین میں سے ایک طالب علم یعنی 33فیصد نے کہا کہ وہ اپنی درسگاہ تعلیمی ادارے میں کسی نہ کسی قسم کی ابیوز یا کرائم کا نشانہ بنا ہے۔ 79فیصد طلبہ کو یقین ہے کہ انہیں ابیوز اور کرائم کا شکار کئے جانے کا محرک ان کی مسلم شناخت ہے۔ این یو ایس نے کہا کہ واقعات سے پہلے اور بعد امتیازی بیانات اور نشانات واضح ہوئے ہیں۔ ایک تہائی جواب دہندگان نے کہا کہ انہیں زبانی ابیوز، جسمانی، حملوں، ہنگامہ آرائی، پراپرٹی کو نقصان یا درسگاہ میں چوری جیسے واقعات پر گہری تشویش ہے جوکہ ان کے عقائد اور مذہب کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔ مسلم طالبات جوکہ نقاب، حجاب یا جلباب زیب تن کرتی ہیں وہ بہت زیادہ تشویش کی شکار ہیں۔ این یو ایس ویمن آفیسر حریم غنی نے کہا کہ ہمیں اسلاموفوبیا اور اینٹی مسلم جذبات کے حوالے سے شدید تشویش ہے جوکہ اداروں، درسگاہوں اور سوسائٹی میں پھیل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس لعنت کو معاشرے میں مزید پھیلنے سے روکنے کے لئے فوری طور پر ٹھوس اور سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سٹوڈنٹس یونینز مسلم طلبہ خصوصاً طالبات (خواتین) کو کیمپس میں نسل پرستی سے محفوظ رکھنے کے لئے اقدامات کریں، ماہ رواں کے اوائل میں یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میں امتیاز اور نسل پرستی کے بڑھتے ہوئے مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔ یونیورسٹی کے ایک سیاہ فام طالبہ کی اس شکایت کے بعد اسے ایک گروپ نے نسل پرستانہ ابیوز کا نشانہ بنایا گیا دو افراد کو گرفتار کرلیا گیا ۔ نوٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کی روفیرو چیسانگو کی شکایت پر آفیسرز نے تحقیقات شروع کردی ہے۔ اس واقعے کی ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے جس میں مردوں کا ایک گروپ یہ نعرے لگا رہا تھا کہ ہم کالوں سے نفرت کرتے ہیں۔90فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ ان کے کیمپس میں یا قریب میں نماز کےلئے جگہ یا مسجد موجود ہے، جبکہ 68فیصد کا جواب تھا کہ انہیں کیمپسز میں یا قریبی علاقے میں حلال فوڈز کی رسائی ہے۔ سروے میں 28فیصد جواب دہندگان کا یہ کہنا تھا کہ ان کے اداروں میں مسلم چیپلن یا امام ہونے چاہیں۔ شیڈو ایجوکیشن سیکرٹری انجیلا رینر نے کہا کہ طلبہ کی کیئر کی ذمہ داری یونیورسٹیز پر عائد ہوتی ہے۔ کسی بھی طالب علم کو چاہے اس کا تعلق کسی بھی عقیدے یا بیک گرائونڈ سے ہو غیرمحفوظ نہیں ہونا چاہئے۔ کوئی مذہبی، صنفی یا نسلی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ ہماری یونیورسٹیز لرننگ اور ڈیبٹ کے ادارے ہیں اور یہاں تمام طلبہ کو تحفظ کا بخوبی احساس ہونا چاہئے۔ انہیں کسی تشدد عتاب، نفرت کا خوف نہیں ہونا چاہئے۔ ڈیپارٹمنٹ فار ایجوکیشن ترجمان نے کہا کہ پریوینٹ پروگرام صرف فری سپیچ یا طلبہ کی جاسوسی کے لئے نہیں ہے اور اسے کسی مخصوص گروپ کے خلاف امتیاز کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ حکومت تعلیمی اداروں میں بلاامتیاز رنگ و نسل و مذہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے پرعزم اور مخلص ہے۔
تازہ ترین