• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل وخار … سیمسن جاوید
جس تیزی سے پاکستان کے سیاسی حالات میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اس سے مستقبل میں مایوسی کے گہرے اندھیروں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا اور جس طرح عوام کے مینڈیٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، جیسے صوبہ بلوچستان کی حکومت کی راتوں رات تبدیلی اور پھر سینیٹ اور اْس کے چیئرمین کے انتخاب میں تماشے اور خرید وفروخت نے ووٹ کے تقدس کو اس طرح پامال کر کے رکھ دیا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ملتی۔ یہ پاکستان کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اْس کے منتخب نمائندے پیسے کی خاطر پارٹی سے وفاداریاں نبھانے کی بجائے اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں۔ حریف سیاسی پارٹیوں کی یہ ضدہے کہ ن لیگ کو سیاسی میدان سے ختم کردیا جائے چاہے اس کے لئے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ بیشک انہیں اپنے نظریات کا سودا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ ایسے لوگوں نے سیاست کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ رہی بات کہ بلوچستان کا چیئرمین بنانے سے صوبہ بلوچستان کی محرومیاں دور ہونگیں اور یہ صوبہ ترقی کرے گا۔ اس بات میں کو ئی نقطہ نظر نہیں آتا۔ کیونکہ تبدیلی لوگوں کے ذہن اور سوچ سے آتی ہے۔ جہاں ملک پرستی کی بجائے قوم پرستی کو اہمیت دی جائے وہاں تبدیلی لانا کیسے ممکن ہے۔ بلوچستان کی یہ تاریخ ہے کہ اس نے کبھی بھی وفاق کی زنجیر کا حصہ بننے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنے ادب و ثقافت، رسم و رواج اور قبیلہ پرستی سے باہر نہیں نکلتے۔ بلوچستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ سردار اور نواب یہ کبھی نہیں چاہتے کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے نظام میں کوئی مداخلت کر ے۔ بلوچ قوم تعلیم کے زیور سے مامور ہو اور صوبہ کی معیشت ترقی کرے یا عام آدمی کو زندگی کی تمام سہولتیں میسر آئیں۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بلوچستان کو اہمیت نہ دی جائے۔ اہمیت لینا اور اہمیت دینا ہی وفاق کی علامت ہوتی ہے۔ یہ کوشش سب سے پہلے صوبہ بلوچستان کو خود بھی کرنا ہو گی۔ اس سے پہلے صوبہ بلوچستان سے ظفر اللہ جمالی پاکستان کے وزیراعظم رہ چکے ہیں جو ایک پرانے اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں مگر ان کے وزیراعظم ہونے سے صوبہ بلوچستان کو کیا فرق پڑا۔ بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی کی حکومت کے علاوہ کوئی بھی مستحکم حکومت نہیں بنی۔ ہمیشہ مخلوط اور کمزور حکومت بنتی رہی ہے۔ ایک طرف بلوچ بیلٹ ہے تو دوسری طرف پشتون بیلٹ ہے۔ پنجابی اور ہندوئوں کی اکثریت کو صوبہ بلوچستان سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔ وہاں قوم پرست سیاسی پارٹیوں کے علاوہ مذہبی سیاسی پارٹیاں ہیں جو آپس میں کبھی بھی متحد نہیں ہوئیں اور نہ ہی پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن جو وفاق کی علامت سمجھے جاتے ہیں، کو اس صوبہ میں اکثریت حاصل رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آئندہ بھی اس صوبے سے کو ئی خاص امیدیں وابستہ نہیں رکھی جا سکتیں۔ یہ سچ ہے کہ تبدیلی عوام کے ذہنوں سے آتی ہے شخصیات سے نہیں اور پھر سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب بھی ایسے شخص کا کیا ہے جو اپنی کم عمری کی وجہ سے ملک کا قائم مقام صدر بھی نہیں بن سکتا۔ اسی لئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ نیازی اور زرداری کو صادق سنجرانی کہاں سے مل گیا۔ یاد رہے کہ صادق سنجرانی ایم این اے یا ایم پی اے تو دور کی بات کبھی کونسلر بھی نہیں بن سکے۔ سینیٹ اور سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ بہت بڑا لمحہِ فکریہ بن گیا ہے۔ اور بانی مسلم لیگ ن میاں نواز شریف، مریم نواز اور دوسرے سرکردہ وزرا کو سخت عدالتی مشکلات اور حریف سیاسی پارٹیوں کی مذاحمت کا سامنا ہے۔ ن لیگ کے ارکان کا بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی اور سینیٹ کے الیکشن میں اپنی پارٹی سے بے وفائی کرنا کسی بہت بڑے خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے نئے بننے والے صدر میاں شہباز شریف ان تمام خطرات سے بچنے کیلئے کیا حکمت عملی اور تدابیر اختیار کرتے ہیں، خاص کر پنجاب میں مسیحیوں کی اکثریت، جو ان کے ہر دورِ حکومت میں مذہبی دہشت گردی کا نشانہ بنی ہے اور جو مسلم لیگ ن سے سخت نالاں بھی ہے، ان کا جھکائو پیپلز پارٹی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ وہ پیپلز پارٹی سے بھی زخم رسیدہ ہیں۔ کیا میاں شہباز شریف اپنی پرانی صورت حال کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ آئندہ آنے والے والے انتخابات میں عوام پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے سوچ سمجھ کر ایسی سیاسی پارٹی اور ایسے نمائندوں کو ووٹ دیں جو واقعی صادق و امین ہوں۔ کھیل کی طرح حکومت کو بھی کھیل سمجھ کر سٹہ بازی نہ کریں بلکہ عوام اور ملک کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ مسلم لیگ ن جو پنجاب میں اب بھی اکثریت کے دلوں میں بستی ہے اسے ختم کرنے کے لئے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی مل کر کولیشن یعنی مخلوط بنانے کی کوشش کریں گی جو بلوچستان کی طرح کمزور ہوگی۔ شاید اس کا حشر بھی بلوچستان کی سابق حکومت کی طرح ہی ہو۔ بہرحال آنے والی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلور کراسنگ کو روکنے کیلئے مزید کڑے قوانین بنائے۔ جو اپنی پارٹی سے وفا دار نہیں وہ دوسری پارٹی سے کیونکر وفا دار ہو سکتا ہے۔ اقتدار اور کرپشن کی سیاست نے پہلے ہی ملک کا دیوالیہ نکال دیا ہے اگر دھونس، اقتدار کی کشمکش اور خرید و فروخت کی سیاست کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ملک گرین واچ لسٹ کی بجائے بلیک واچ لسٹ میں آسکتا ہے۔
تازہ ترین