• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مرتبہ پھر سے ثابت ہو گیا کہ تنگ نظری کی دوڑ میں پنجاب کے حاکم طبقے کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی نے اسکولوں میں رقص پر پابندی لگا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس صوبے کی سیاسی اشرافیہ کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مجوزہ قانون حکمران جماعت ، مسلم لیگ (ن) کے ایک صوبائی اسمبلی کے ممبر کی پیش کردہ قرارداد پر منظور ہوا۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف موت و حیات کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس کو روشن خیال حلقوں کی حمایت کی شدید ضرورت ہے جو وہ اس طرح کی تنگ نظری کا مظاہرہ کر کے حاصل نہیں کر سکتی۔اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کی تاریخ ہے جس کو وہ فخریہ طور پر پیش نہیں کر سکتی۔
اسی طرح کا قانون پی ٹی آئی کے ایک ممبر نے سندھ اسمبلی سے منظور کروانے کی کوشش کی تھی جو کہ کامیاب نہ ہو سکی۔ سوال یہ ہے کہ وہ قانون جس کو خیبر پختونخوا کے روایت پرست حلقے بھی منظور کروانے کے لئے کوئی جوش و خروش نہیں دکھا رہے وہ پنجاب میں کیوں اور کیسے منظور کر لیا جاتا ہے۔لگتا یہ ہے کہ اس طرح کے قوانین منظور کرکے مسلم لیگ (ن) مذہبی اور قدامت پرست ووٹوں کو سمیٹنا چاہتی ہے۔ اس کے اسی طرز حکومت کی وجہ سے پنجاب میں مذہبی منافرت اور فرقہ واریت تیزی سے پھیلی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے قدامت پرستانہ رویے جمہوریت کی روح کے خلاف ہیںکیونکہ جمہوریت میں شخصی آزادیوں کو اولیت حاصل ہوتی ہے جو کہ اس طرح کے قوانین کی وجہ سے سلب ہو جاتی ہیں۔ اس سے پہلے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بسنت کے انعقاد پر پابندی لگا چکے ہیں۔ اس پابندی کا بھی جو جواز پیش کیا جاتا ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔
پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں رقص کے خلاف قانون منظور کروانے والے ممبر نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے اقدامات مغربی ثقافت کی یلغار کو روکنے کے لئے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا موسیقی اور رقص پر مغرب کی اجارہ داری ہے اور کیا پنجاب کے معاشرے میں اس طرح کے فنون لطیفہ کی کوئی روایت نہیں ہے؟ کیا بھنگڑا، لڈی اور گدھا جیسے رقص مغرب سے درآمد کئے گئے ہیں؟ کیا مسلمانوں نے برصغیر کی موسیقی پر گہرا اثر مغربی خیالات سے متاثر ہو کر کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے کیونکہ موسیقی اور رقص مقامی ثقافت کا حصہ رہے ہیں۔ رہا مغربی کلچر کی یلغار کا سوال تو کیا وہ اس طرح کے قوانین کےنفاذ سےروکی جا سکتی ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خود جمہوریت کا تصور مغرب سے لیا گیا ہے۔ اگر ہمارے پنجاب کے صوبائی اسمبلی کے ممبران حقیقی انداز میں مغرب کے اثرات سے آزادی چاہتے ہیں تو وہ فوراً استعفیٰ دیکر موجودہ جمہوری نظام کا خاتمہ کریں اور ایسا نظام حکومت قائم کریں جس کی ابتدا مغرب سے نہ ہوئی ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سر تا پا مغربی طرز زندگی کا نمونہ ہیں۔ ہمارے کپڑے، بال، جوتے اور باقی پہناوے مغرب سے لئے گئے ہیں۔ آج کل بنائے جانے والے بالوں کا اسٹائل مقامی نہیں ہے، ہم کرتے کی بجائے قمیض پہنتے ہیں اور روزانہ شیو کرکے مغرب کے اثرات کے پوسٹ کارڈ بنتے ہیں۔ برتھ ڈے منانے سے لیکر بیماروں کیلئے پھول لے جانے تک کے سب انداز مغرب سے لئے گئے ہیں ۔ جب یہ سارا کچھ ہو رہا ہے تو بچوں کا موسیقی اور رقص میں دلچسپی لینا کیسے برا ہو گیا؟
پنجاب میں مذہبی تطہیر کا عمل ستر کی دہائی سے شروع ہوا تھا جب اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی قوانین منظور کرنا شروع کئے تھے۔ اس کے بعد ضیاء الحق سے لیکر مسلم لیگ (ن) تک نے ان قوانین کو سخت سے سخت کرنے کا عمل جاری رکھا۔ ان قوانین سے معاشرے کی تطہیر کی بجائے معاشرتی برائیوں اور تنگ نظری میں اضافہ ہوا۔
اسی دور میں مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ سارا معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہو چکا ہے۔ منشیات کے استعمال میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ عورتوں اور بچوں کے خلاف تشدد کے جرائم بھی کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ پاکستان غیر اخلاقی فلموں کی انٹرنیٹ پر تلاش میں سب سے آگے ہے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم تطہیری لائحہ عمل کے نتائج پر غور کریں اور وہ راستہ اپنائیں جو پیچھے دھکیلنے کی بجائے آگے لیکر چلے۔ کیا سعودی عرب جیسا قدامت پرست ملک بھی اپنے متشدد مذہبی رویے کو تبدیل کرنے پر مجبور نہیں ہوا؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب شخصی آزادیوں پر مصنوعی قدغنیں لگائی جاتی ہیں تو معاشرہ ذہنی طور پر بیمار ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ایٹم بم تو بنا لیا لیکن وہ سماجی علوم میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ہم ہر طرح سے اپنا مقابلہ ہندوستان سے کرتے ہیں لیکن کیا ہم فکری میدان میں ان سے بہت پیچھے نہیں رہ گئے۔ مغرب کے تعلیمی اداروں، میڈیا اور حکومتوں کے نظام میں ہندوستانی بہت آگے جا چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا منفی تصور عالمی سطح پر نمایاں نظر آتا ہے۔ اور پاکستان کا منفی تصور کیوں نہ بڑھے جب اس کے سب سے بڑے صوبے کی اولین ترجیح موسیقی اور رقص پر پابندی لگ رہی ہو۔اگر مسلم لیگ (ن) کا ایجنڈا ملک میں سچی جمہوریت قائم کرنے کا ہے تو اسے اپنے طرز عمل میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ اس کو رجعت پسندی کی دوڑ میں شامل رہنے کا رویہ ترک کر کے شخصی آزادیوں کو ترجیح دینا ہو گی۔ پنجاب بہت تیزی کے ساتھ معاشی ترقی کر رہا ہے اور وہ ایک جدید معاشرے میں ڈھلنے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اس صورتحال میں اس کی نمائندہ پارٹی کو جدید ادارے قائم کرنا چاہئیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ پارٹی بھی تاریخ کی ردی کی ٹوکری کا حصہ بن جائے گی۔ مرزا اسداللہ خان غالب تو بہت پہلے کہہ گئے تھے:
ہم مواحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
امتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین