• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بازار سے ڈالر لیکر سب پاک کرلیا جاتا ہے، سپریم کورٹ

بازار سے ڈالر لیکر سب پاک کرلیا جاتا ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد( رپورٹ :،رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ میں ’’ پاکستانیوں کے بیرونی ممالک میں رکھوائے گئے اربوں روپے کے مبینہ غیر قانونی اثاثوں‘‘ سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بیرونی ملکوں سے ر قوم واپس لانے کیلئے’’ ورکنگ گروپ‘‘ تشکیل دینے کاعندیہ دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب اس ملک کے چارٹرڈ اکائونٹنٹس ہی پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوائی گئی رقوم واپس لانے میں ہماری مدد کرینگے، کیوں نہ ملک کے 100بڑے لوگوں کوعدالت میں طلب کرلیا جائےاور ان سے انکے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات پوچھیں،ہم ایسا کوئی اقدام نہیں کرینگے جس سے ملک میں افراتفری یا خوف و وہراس پھیلے، شیل کمپنیوںکوتوڑتے توڑتے کہیں ہتھوڑاہی نہ ٹوٹ جائے ؟ پاکستانیوں کے بیرون ملک اکائونٹس ہیں، خیال کیا جاتا ہے ان میں بڑی غیرقانونی رقوم موجود ہیں، غیرملکی اکائونٹس میں موجود پیسے کوواپس کیسے لانا ہے؟ پاکستانیوں کی بیرون ملک املاک بھی ہیں،کیا ان کو چھوڑ دیں؟ ان املاک کو واپس کیسے لایاجاسکتاہے؟ آرام سے کیس چلانا ہے، ہم صرف حکومت کی مدد کرنا چاہتے ہیں تا کہ غیر ملکی اکائونٹس میں رکھی گئی رقم واپس لائی جا سکے، عدالت کو اختیارات سے تجاوز کا طعنہ دیا جاتا ہے،چاہتے ہیں بچوں کو ایسا ملک دیکر جائیں جہاں وہ خوش و خرم رہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہماری کرنسی باہر جا رہی اور ہم قرضوں پر قرضے لے رہے ہیں ،بازار سے ڈالرخرید کر سب کچھ پاک کرلیا جاتا ہے ۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے عدالت کو بتایا کہ قانون فارن کرنسی ایکسچینج چلانے والوں کیلئے بڑا نرم ہے، پیسے کی منتقلی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بند یا ل اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی توگورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ ،سیکرٹری خزانہ عارف خان،چیئرمین ایف بی آر طارق محمود پاشا ،معروف چارٹرڈ اکائونٹنٹ، سید شبر حسن رضوی اور محمود مانڈوی والا اور درخواست گزار محمد علی درانی سمیت متعلقہ فریقین پیش ہوئے، گورنر اسٹیٹ بینک نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے بیرونی ممالک سے معلومات مانگی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ معاشی اصلاحات کے تحت غیرملکی اکائونٹ کھولنے کی اجازت دی گئی، گلوبل کمیونٹی کاحصہ بننے کیلئے اصلاحات متعارف کرائی گئیں، معاشی اصلاحات کیلئے ون وے ٹریفک نہیں ہوسکتی تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسپین، ملائشیا ، دوبئی،امریکا اور فرانس میں لوگوں نے املاک خرید رکھی ہیں،جن لوگوں نے یہ گتھیاں الجھائی ہیں وہی انہیں سلجھائیں گے،یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ قوم کا پیسہ واپس لایا جائے،ہم نے پاکستان سے بھاگ کر نہیں جانا ہے ،ہمارے بچوں کا ہم پر حق ہے کہ ہم انہیں ایسا پاکستان دیکر جائیں جہاں وہ خوش و خرم رہیں،کیوں نہ ملک کے 100بڑے لوگوں کوعدالت میں طلب کرلیا جائے ؟ ان لوگوں کوبلاکرپوچھ لیں کہ وہ اپنے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات دیدیں ،ممکن ہے کہ وہ ہماری بات مان کرتفصیلات دیدیں، کتنے لوگ ملک چھوڑ کرچلے جائینگے ؟ جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے ملک کی کرنسی کی ویلیو تیزی سے گر رہی ہے، بے ایمان لوگوں کوخصوصی مراعات دی جاتی ہیں ،غیرقانونی چینل سے لوگ پیسہ باہرمنتقل کرکے قانونی طریقے سے واپس لے آتے ہیں، اوپن مارکیٹ میں ڈالرخرید کر سب کچھ پاک کر لیا جاتا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر منی چینجر کو اچھی پرسنٹیج دے دیں تووہ زرمبادلہ کابندوبست کردیتا ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو بیرون ملک اکائو نٹس کی تفصیلات لینے کاحکم دیا تھا ،گورنرسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کہا کہ یہ پیسہ بنکنگ چینل سے باہر نہیں جاتا ،یہاں پر چیک اینڈ بیلنس کی صورتحال بہت ہی خراب ہے ، پچھلے کئی سالوں سے ہماری آمدن میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا صرف جائیدادوں کی قیمتوں میں ہی اضافہ ہوا ،جبکہ مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ، انہوں نے کہاکہ کہ آج کل رقوم بیرون ملک بھجوانا بہت مشکل ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیا کہ ان رقوم کی واپسی کس طرح ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنا کر ہی یہ ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ ایمنسٹی کی اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے ،انڈیا اور بنگلہ دیش سمیت مختلف ممالک نے کئی بار ایمنسٹی دی ہے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہم یہ کام نیک نیتی سے کررہے ہیں جس کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا ،یا حکومت یا پارلیمنٹ کے کاموں میں مداخلت کرنا نہیں۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے مزید کہا کہ بیرون ملک اثاثوں کی تصدیق ہوجائے گی لیکن وقت لگے گا،پوری دنیامیں ڈیکلئیرڈ اثاثوں کے گرد گھیراتنگ کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ گھیراتنگ کرنے سے آپ کی کیامراد ہے ؟یہاں پاکستان میں کیسے گھیراتنگ ہوگا ؟ جس پر انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں کرنسی کی آزادانہ نقل و حرکت ہو رہی ہے، فارن کرنسی سے متعلق قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے، قانون فارن کرنسی ایکسچینج چلانے والوں کیلئے قانون بڑا نرم ہے، پیسے کی منتقلی کے حوالے سے سخت قانون سازی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں مستقبل کے حوالے سے ایسے کاموں پر کسی قسم کی مصلحت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ماضی میں باہر بھیجا گیا سرمایہ واپس لانے میں بہت وقت لگے گا۔ دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے بیرونی ممالک سے رقوم واپس لانے کیلئے ورکنگ گروپ تشکیل دینے کاعندیہ د یتے ہوئے کہا کہ ورکنگ گروپ منی لامڈرنگ اور رقم لانے سے متعلق تجاویز دیگا،ورکنگ گروپ کی تجاویز پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں گے،معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے کے بعد ہم بری الذمہ ہونگے ،ایساخوف پیدانہیں کرناچاہتے جوہماری معیشت کیلئے نقصان دہ ہو۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پاکستان کے اکائو نٹس سے متعلق سوئس حکام سے معلومات مانگی ہیں؟، گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ معلوم نہیں کہ سوئس حکام کے پاس معلومات ہیں یا نہیں،جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ حکومت سوئس حکام سے معلومات مانگتی تو ہو سکتا ہے وہ معلو ما ت مل جاتیں، دوران سماعت امائیکس کیورائے (عدالتی معاون )چارٹرڈ اکائونٹنٹ شبر زیدی نے کہا کہ بیرون ملک تین اقسام کے اثاثے منتقل ہوئے ہیں، عوام کے بیرون ملک پیسے پر کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے، بیرون ملک منتقل پیسے کی ایک قسم وہ بھی ہے جس پر ٹیکس نہیں دیا گیا،ایسا پیسہ بھی منتقل ہوا جس پر ٹیکس ادا کیا گیا ہے، بیرون ملک آف شور ٹرسٹ بنا کر بنا کر اثاثہ رکھا جاتا ہے، دیانت دار لوگوں کیلئے فارن کرنسی اکائونٹس بند نہیں کر سکتے ، ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو فارن کرنسی اکائونٹ سے رقم منتقل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کرپشن اور مجرمانہ فعل کی رقم بیرون ملک نہیں جانی چاہیے، 2001میں نان ریذیڈنٹ کو 182دن کی رعایت دیدی گئی تھی، دوسرے امائیکس کیورائے محمود مانڈوی والانے موقف اختیار کیا کہ 2003 میں ایس آر اوجاری کرکے ایک ہزار ڈالرسے زیادہ رقم باہرلے جانے کی اجازت مل گئی تھی،7 ارب ڈالرفارن اکائونٹس میں رکھنے والے وی آئی پی پاکستانی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کرپشن کی رقم بیرون ملک رکھی جاتی ہے تاکہ محفوظ رہے، بڑے بڑے کک بیکس یہاں مل رہے ہیں، بیرون ملک سے پیسہ واپس لانے کیلئے کیااقدامات کیے جاسکتے ہیں، جس پرمحمود مانڈوی والا نے عدالت کو بتایا کہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے، صرف ایمنسٹی اسکیم سے زیادہ فائدہ نہیں ہوگا، بھارت نے 18بنگلہ دیش نے 11ایمنسٹی اسکیم جاری کیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بیرون ملک رقم کی ریکوری میں حکومت کی مدد کرسکتے ہیں،ہمارے ذہن میں کوئی بدنیتی نہیں ہے، نیک نیتی سے معاملے کولیاہے، افراتفری پیدانہیں کرناچاہتے، محمود مانڈوی والا نے کہا کہ کارکے کمپنی اور ریکوڈک کے حوالے سے عدالتی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کو بہت سنجیدہ نوعیت کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔

تازہ ترین