• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز تقرری و احتساب سمیت دیگر آئینی ترامیم آئندہ پارلیمنٹ دیکھے گی، حکومت کافیصلہ

ججز تقرری و احتساب سمیت دیگر آئینی ترامیم آئندہ پارلیمنٹ دیکھے گی، حکومت کافیصلہ

اسلام آباد (انصار عباسی) منگل کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ زیر غور آئینی ترامیم بشمول ججوں کے تقرر اور ان کے احتساب کا معاملہ آئندہ پارلیمنٹ کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں وزیر قانون، وزیر برائے پارلیمانی امور، وزیر مملکت برائے قانون اور دیگر نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں کے مجوزہ قوانین کا مسودہ عوام کے وسیع تر مفاد میں آئندہ پارلیمنٹ سے منظور کرائے جائیں۔ وزارت قانون اور وزارت پار لیمانی امور سے کہا گیا ہے کہ وہ تنازعات سے بچیں اور سادہ قانون سازی پر دھیان دیں جس کا مقصد عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کے موجودہ عمل پر توجہ مرکوز رکھنا ہے، ساتھ ہی پرانے اور متروک قوانین کی جگہ نئے قوانین لائے جائیں اور انہیں نافذ کرایا جائے؛ جس کا وعدہ مسلم لیگ (ن) نے 2013ء میں اپنے انتخابی منشور میں کیا تھا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایسی قانون سازی کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی جائے۔ وزارت قانون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف وزارتوں اور ڈویژنوں کی جانب سے 36؍ سے زائد قوانین کا مسودہ منظوری کیلئے پیش کیا گیا ہے اور اب ان کیلئے موجودہ حکومت کے آگے بڑھنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ تاہم، کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے وزارت قانون سے کہا ہے کہ کسی طرح کے آئینی ترمیم کے قانون (مسودے) کو ہاتھ نہ لگائے کیونکہ ایسے اقدام کی وجہ سے غیر ضروری تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ لہٰذا، فیصلہ کیا گیا کہ ان آئینی ترامیم کو آئندہ پارلیمنٹ کیلئے چھوڑ دیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دو آئینی ترامیم پر وزارت قانون غور کر رہی تھی۔ ان میں سے ایک ججوں کے تقرر اور انہیں عہدے سے ہٹانے کے متعلق تھی جبکہ دوسری نگراں حکومت ہٹانے کے آپشن کے متعلق تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ آئینی ترامیم تنازع کا سبب بن سکتی تھیں اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی مدت کے آخری چند ماہ میں ان تنازعات سے بچنا چاہتی ہے۔ نواز شریف کو نا اہل قرار دیے جانے اور عدلیہ اور حکمران جماعت میں بڑھتی کشیدگی کے درمیان وزارت قانون نے حال ہی میں آئینی ترمیم کے مسودے پر غور کرنا شروع کر دیا تھا، یہ مسودہ پہلے سینیٹ کمیٹی نے مرتب کیا تھا تاکہ پارلیمانی کمیٹی کو اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کیلئے مکمل اختیارات دیے جا سکیں اور ججوں کا احتساب کرنے کیلئے پارلیمنٹ کو با اختیار بنایا جا سکے۔ فاروق نائیک کی زیر قیادت سینیٹ کمیٹی کی جانب سے سفارشات پیش کیے جانے کے بعد وزارت قانون نے آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا تھا۔ موجودہ صورتحال میں چیف جسٹس کی زیر قیادت جوڈیشل کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اپنے نامزد کردہ ججوں کو مقرر کرائے۔ لیکن اس کے برعکس، ترمیمی مسودے میں پار لیما نی کمیٹی کو بالادست بناتے ہوئے ججوں کے تقرر کا اختیار دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق نائیک کی زیر قیادت سینیٹ کمیٹی نے اتفاق رائے کے ساتھ آئینی ترمیم کی سفارش کی تھی لیکن اب حکومت کو لگتا ہے کہ اس وقت ایسی کوئی بھی ترمیم تنازعات پیدا کر دے گی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگرچہ سیاسی جماعتوں نے سینیٹ کمیٹی کی سفارشات پر اتفاق کیا تھا لیکن اب یہ جماعتیں ایسی آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سینیٹ کمیٹی نے 2015ء میں آئینی ترمیم کی سفارش کی تھی لیکن وزارت قانون نے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ رپورٹ کو دبا دیا جائے۔ وزیراعظم کی نا اہلی کے بعد وزارت قانون نے یہ فائل دوبارہ کھولتے ہوئے قانون کا مسودہ تیار کیا لیکن اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ معاملہ نئی پارلیمنٹ آنے تک دوبارہ دبا دیا جائے۔

تازہ ترین