• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمان احمد سمیت کئی حامی عمران خان سے مایوس ہوگئے

سلمان احمد سمیت کئی حامی عمران خان سے مایوس ہوگئے

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ نظیر بنے گا یا عمران خان کا فیصلہ مثال ثابت ہوگا، اراکین پارلیمنٹ کی نااہلی کے معاملہ پر سپریم کورٹ آئندہ کیا فیصلہ کرے گی یہ بہت اہم ہوگا، سپریم کورٹ اب ایک اور رکن اسمبلی شیخ رشید کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے جارہی ہے، سپریم کورٹ میں شیخ رشید کی نااہلی کی درخواست کی سماعت کے دوران اہم ریمارکس سامنے آئے، عدالت نے نااہلی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائے گا، سلمان احمد سمیت کئی حامی عمران خان سے مایوس ہوگئے،سلمان احمد کو لگتا ہے کہ عمران خان جنہیں وہ35سال تک اپنا ہیرو مانتے رہے ان کے فیصلوں کا دفاع اب ممکن نہیں رہا۔معروف ماہر قانون ایس ایم ظفر نے کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ کمزور دلیل پر دکھائی دیتا ہے، عدالت کو کسی مضبوط بنیادوں پر فیصلہ کرنا چاہئے تھا تاکہ وہ اصول بن جاتا، اس فیصلے میں کمزور دلیل ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت بھی کمزور ہوگئی ،مجھے نظر آتا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے کچھ راستہ نکالنا شروع کردیا ہے، چیف جسٹس اب سوشل ایونٹس کی طرف آرہے ہیں جبکہ کرپشن کے معاملات کو ثانوی بنانا شروع کردیا ہے۔سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کہا کہ شاہد مسعود کیخلاف دہشتگردی کی شقیں کیوں نہیں لگائی گئیں جبکہ ان کی وجہ سے معاشرے میں ہیجان پھیلا اوربہت سے لوگوں پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ ن لیگ کے رہنما شکیل اعوان نے کہا کہ شیخ رشید آج پوتر بنتا ہے لیکن خود سب سے بڑا لٹیرا ہے۔ گزشتہ روز میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ محفوظ ہوچکا ہے، درخواست گزار شکیل اعوان نے شیخ رشید کی نااہلی کیلئے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ شیخ رشید نے کاغذات نامزدگی میں اپنے اثاثے چھپائے ، گھر کی درست مالیت نہیں بتائی، شیخ رشید نے گھر کی قیمت ایک کروڑ دو لاکھ ظاہر کی ہے جبکہ گھر کی بکنگ 4کروڑ 80لاکھ سے شروع کی گئی، شیخ رشید نے زمین کا قبضہ بھی درست نہیں بتایا، فتح جنگ میں زمین ایک ہزار 81کنال ہے مگر کاغذات نامزدگی میں 968کنال اور 13مرلہ ظاہر کی گئی ، شیخ رشید کی آمدن اور بینک اکاؤنٹ میں بھی فرق ہے،سماعت کے دوران پاناما کیس کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا جس پر بنچ کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتہائی اہم ریمارکس دیئے کہ کیا پاناما کیس کے فیصلے میں وضع کردہ اصولوں کا اطلاق سب پر نہیں ہوگا؟ پاناما کیس میں کہاں یہ اصول طے ہوا کہ غلطی جان بوجھ کر ہو یا غیر ارادی، نااہلیت ہوگی،امریکی صدر کہتے ہیں فلاں ریٹرنز ظاہر نہیں کروں گا، مگر یہاں غلطی بھی نااہلیت ہے، پاکستان میں تو الیکشن لڑنا مشکل ہوگیا ہے اور سب سے مشکل کام کاغذات نامزدگی بھرنا ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پاناما نظرثانی فیصلے میں بدنیتی اور نیک نیتی کے قانونی سوال کو طے کردیا گیا ہے، سوال یہ ہےکہ کاغذات نامزدگی میں غلطی ہوجائے اثاثہ ظاہر نہ کیا جائے اور ثابت بھی ہوجائے تو کیا وہ فارغ ہے؟ شیخ رشید کے وکیل نے کہا کہ شیخ رشید نے اثاثے نہیں چھپائے، ان سے جمع تفریق کی غلطیاں ضرور ہوئی ہیں یہ تسلیم کرتے ہیں، سپریم کورٹ نے تمام فیصلے اثاثے چھپانے پر کیے، شیخ رشید نے کوئی اثاثہ نہیں چھپایا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاناما میں کیس فلیٹس کا تھا نااہل اقامہ پر کیا گیا۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے شیخ رشید کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے، کیا عدالت عمران خان کے کیس کوسامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی جس میں عدالت نے عمران خان کی نیت کو دیکھتے ہوئے انہیں نااہل قرار نہیں دیا ، یا پھر عدالت نواز شریف کی نااہلی کے معیار کو سامنے رکھے گی جس میں عدالت نے قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ قرار دیا جو انہوں نے وصول نہیں کی تھی اور اسے ظاہر نہ کرنے پر انہیں نااہل قرار دیدیا، اگر غلطی ہوجائے اور اسے تسلیم کرلیا جائے تو پھر عدالت نیت دیکھے گی یا کچھ اور دیکھا جائے گا، غلطی کی صورت میں نااہلی ہوگی یا کچھ اور معاملہ ہوگا، پاناما کیس میں اقامہ پر نااہلی پر جسٹس فائز عیسیٰ کے ریمارکس کتنے اہم ہیں کیونکہ یہی بات نواز شریف بھی کرتے رہے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ٹی وی اینکر کی جانب سے زینب قتل کیس کے مجرم سے متعلق اپنے دعوؤں کے ثبوت پیش نہ کرنے اور مقررہ مدت میں معافی نہ مانگنے پر ان کا پروگرام 3ماہ کیلئے بند کرنے کا حکم دیدیا ہے، عدالتی حکم پر اینکر نے تحریری طور پر غیرمشروط معافی نامہ بھی جمع کروادیا، آج کی سماعت میں چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی توہین پر بھی اینکر پرسن پر برہمی کا اظہار کیا، چیف جسٹس نے سماعت کے دوران اینکر سے کہا کہ آپ نے خود کہا تھا کہ میرا دعویٰ غلط ثابت ہو تو پھانسی لگادیں مگر ہم آپ کو پھانسی نہیں دیں گے لیکن آپ اپنی سزا خود تجویز کریں، جواب میں اینکر نے پہلے ایک اور پھر دو ماہ کیلئے پروگرام بند کرنے کا کہا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 3ماہ کیلئے آف ایئر کررہے ہیں ، پروگرام 3ماہ کیلئے بند ہوگا۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ اینکر نے قصور کی 6سالہ بچی سے زیادتی اور قتل کے مجرم سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ عمران نامی یہ مجرم کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ اس کے 37بینک اکاؤنٹس ہیں، وہ ایک بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس گروہ میں مبینہ طور پر پنجاب کے ایک وزیر بھی شامل ہیں لیکن اینکر اپنے دعوے ثابت نہیں کرسکے اور آج معافی مانگتے نظر آرہے ہیں، عدالت نے اینکر کے پروگرام پر 3ماہ کی پابندی لگادی، اس فیصلے کا تحریری حکمنامہ جاری نہیں ہوا اس لئے واضح نہیں کہ اس پابندی کیلئے کن قوانین کا اطلاق کیا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ معاملہ حساس تھا اور اینکر نے بغیر ثبوت دعوے کر کے سنگین غلطی کی، یہاں یہ سوال اہم ہے کہ ٹی وی اینکر کے پروگرام پر جو پابندی لگائی گئی اس کا قانونی پیمانہ کیا ہے؟ میڈیا پر پابندی کا اختیار پیمرا کے پاس ہے، عدالت نے پابندی کا فیصلہ پیمرا کے ذریعہ کیا یا براہ راست پابندی لگائی، اگر پابندی پیمرا کے ذریعہ لگائی گئی ہے، اگر سپریم کورٹ نے اس طرح کی پابندی لگا کر نئی روایت قائم کی ہے تو اس کا پیمانہ کیا ہے، آئندہ بھی اگر ایسے معاملات آتے ہیں تو کیا اس کیلئے کوئی نیا قانونی فریم ورک تشکیل دینا ہوگا اور ایسی صورتحال میں پیمرا کا کردار کیا ہوگا، پیمرا ویسے بھی بہت ساری کارروائیاں کرچکا ہے۔

تازہ ترین