• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں گزشتہ روز محض چند گھنٹوں کے اندر تقریباً پانچ روپے کا یکمشت اضافہ جس کے باعث ملکی تاریخ میں ڈالر 115روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ، محض حکومت ہی نہیں بلکہ ملک کی پوری سیاسی قیادت، ریاستی اداروں اور پوری قوم کے لیے نہایت سنجیدہ لمحہ فکریہ ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق روپے کی قیمت میں شدیدمندی کے بعد کرنسی ڈیلرزنے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی خرید وفروخت بندکردی۔ ہمارے بیرونی قرضوں کا حجم کم و بیش 89 ارب ڈالر ہے جو ڈالر کی قدر میں حالیہ ریکارڈ اضافے کے باعث صرف ایک روز میں 800 ارب روپے تک بڑھ گیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں اس اضافے کے باعث ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان متوقع ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ تقریباً یقینی ہے۔اسٹیٹ بینک نے اس منفی صورت حال کا سبب جاری کھاتے کے خسارے اور بیرونی ادائیگیوں کو بتایا ہے جبکہ بیرونی زرمبادلہ کے ڈیلروں اور ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرکزی بینک نے ظاہر کئے بغیر روپے کی سپورٹ ختم کرکے اس کی قدرکم کردی ہے۔ اسٹیٹ بینک نے ادائیگیوں کے دباؤ میں توازن لانے کیلئے گزشتہ سال دسمبر میں بھی اسی طرح روپے کی قدر میں پانچ فیصد کمی کی تھی۔تفصیلات کے مطابق ڈالر مافیا نے صرف ایک گھنٹے کے اندرڈالر کی قیمت بڑھا کر اربوں روپے کما لئے‘ منگل کو اچانک روپے کی قدر میں 4 روپے 40 پیسے کی زبردست کمی ہوئی،جس کے باعث انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 110 روپے 60 پیسے سے بڑھ کر 115 روپے ہوگئی، جبکہ اس دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 111 روپے 50پیسے سے بڑھ کر 114روپے 50پیسے ہوگئی، مارکیٹ کے آغاز سے ڈالر کی قیمت میں تیزی کا رجحان سامنے آیا اورصرف ایک گھنٹے کے اندر اندر ڈالر کی قیمت میں 4روپے 40 پیسے تک کا اضافہ ہوگیا اور اس دوران ایک وقت پر 116روپے 25پیسے تک پہنچ گیا، جس کے بعد اسٹیٹ بینک نے فوری طور پر بینکوں کو ڈالر کی خرید وفروخت کی قیمت کو مستحکم کرنے کے احکامات جاری کیے۔مارکیٹ ذرائع کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اچانک تنا اضافہ کسی بڑی ڈالر مافیا کی منصوبہ بندی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔جبکہ اس ضمن میں جاری کردہ اسٹیٹ بینک کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ جولائی تا فروری مالی سال 18ء کے دوران برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات نے بالترتیب 12.2فیصد اور 3.4فیصد کی اچھی نمو دکھائی جبکہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران اِن میں کمی دیکھی گئی تھی، تاہم بیرونی توازنِ ادائیگی کی صورتِ حال بھاری درآمدی بل کی بنا پر دباؤ میں ہے، ملک کوہفتہ وار 20کروڑ ڈالر سے زائد کی ادائیگیاں کرنی پڑرہی ہیں جس کی بناء پر جاری حسابات کا خسارہ بڑھا اور زرِ مبادلہ کی طلب اور رسد کا فرق پیدا ہوا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق شرحِ مبادلہ میں یہ ایڈجسٹمنٹ بیرونی شعبے میں ارتقا پذیر بنیادی حقائق کے ساتھ بڑی حد تک ہم آہنگ ہے اور اس کی جانب سے زرِ مبادلہ مارکیٹوں کی محتاط نگرانی کی جاتی رہے گی۔ یہ وضاحتیں کتنی اطمینان بخش ہیں اور کتنی نہیں‘ اس سے قطع نظر‘ 2008 ء کے بعد روپے کی قدر کا ایک بار پھر ملکی تاریخ میں پست ترین سطح پرآجانا کروڑوں پاکستانیوں کے شب و روز کی تلخیوں میں بہرحال بے پناہ اضافے کا سبب بنے گا اور خصوصی انتظامات نہ کیے گئے تو عوام کو مہنگائی کے منہ زور سیلاب کا سامنا کرنا ہوگا جبکہ ماہرین اور فاریکس ڈیلرز یہ شبہ بھی ظاہر کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی اس نشان دہی کے مطابق کہ ڈالر کی موجودہ قیمت اس کی قدر کی صحیح عکاسی نہیں کرتی آنے والے دنوں میں اسے 120سے 125روپے تک لے جانا ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کے تجزیے میں اگرچہ ملک میں جاری سیاسی کھینچاتانی اور بعض عدالتی فیصلوں کے باعث جنم لینے والی افرتفری کو معاشی صورت حال میں رونما ہونے والی ابتری کے اسباب میں شمار نہیں کیا گیا ہے لیکن موجودہ حالات میں ان عوامل کا بھی یقیناًبڑا کردار ہے۔حالات کو ازسرنو بہتر بنانے کے لیے سیاسی رہنماؤں اور ریاستی اداروں سب کا مل بیٹھنا اور درپیش چیلنجوں کو مشترکہ طور پر حل تلاش کرنا قومی مفادکا ناگزیر تقاضا ہے۔
kk

 

 

تازہ ترین