بھارت کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑھتی سنگین خلاف ورزیوں اور کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں خطے کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ نے ایک بار پھر دونوں ممالک پرتنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کیلئے جو زور دیا وہ پاکستانی موقف کی بھرپور تائید ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کو کشمیر سمیت تمام دو طرفہ امور پر مذاکرات کی پیشکش کی لیکن بھارتی ہٹ دھرمی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی رہی ہے۔ کنٹرول لائن پر انڈین فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی شہریوں کی مسلسل شہادتوںکے واقعات پر اسلام آباد کے مد برانہ رویےکی بدولت ہی خطہ ابھی تک جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں نہیں آیاوگرنہ پاکستان بھی اس کا بھرپور جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔یو این سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجیرک کی بریفنگ میں اس حقیقت کی بھی درست نشان دہی کی گئی کہ مسائل کا مذاکرات کے ذریعے حل نہ صر ف سرحد کے دونوں اطراف بسنے والوں بلکہ پورے خطے کے عوام کیلئے ضروری ہے۔کیونکہ پاکستان اور بھار ت جنوبی ایشیا کی اہم ریاستیں ہیں ان کے مابین تنازعات کا اثر لامحالہ پورے علاقے کے امن پر پڑتا ہے۔یواین ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں بڑھتی کشیدگی پر عالمی ادارے کی نظر ہے۔ واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد کرہ ارض کو ممکنہ تیسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کیلئےاقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا لیکن یہ ادارہ بھی اپنے پیشرو لیگ آف نیشنز کی طرح عالمی طاقتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا اور عالمی امن قائم رکھنے میں خاطر خواہ کردار ادا نہ کرسکا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اقوام متحدہ بھارت پر دبائو ڈالتی کہ وہ کشمیر میں مظالم بند کرکے تنازع کے حل کیلئےسلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرےاور کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ روکتے ہوئے معاملات کے حل کیلئےمذاکرات کی میز پرآئے۔