ملک میں گنے کی فصل اس مرتبہ بہت اچھی ہوئی تھی اور کاشتکاروں کو توقع تھی کہ انہیں ان کی محنت کا اچھا پھل ملے گا لیکن شوگر مل مالکان جن میں سے اکثر بڑے سیاستدان اور بااثر لوگ ہیں مقررہ قیمت پر گنا خریدنے کے لئے تیار نہیں جس سے کاشتکاروں کو ایک تخمینے کے مطابق 67 ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بھی اس خدشے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ مل مالکان کاشتکاروں سے120سے 130روپے میں40کلو گرام گنا خریدا جا رہا ہے جبکہ رسیدوں پر 180روپے وصول کرنے کے دستخط لئے جا رہے ہیں جو نہ صرف کاشتکاروں کا استحصال ہے بلکہ سراسر دھوکہ دہی بھی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ نے 180روپے فی40کلو قیمت مقرر کر رکھی ہے اس اعتبار سے عدالتی حکم کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کم ادائیگی پر زیادہ نقصان پنجاب اور سندھ کے کاشتکاروں کو پہنچ رہا ہے جہاں سب سے زیادہ گنا کاشت کیا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کی سرکاری دستاویز میں بھی اس ناانصافی کی تصدیق کی گئی ہے بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے بھی 140روپے فی 40کلو خریداری کی جا رہی ہے جس کا کوئی جواز نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مشترکہ مفاد کونسل کے اجلاس میں صوبائی حکومتوں پر زور دیا گیا کہ وہ مقررہ قیمتوں پر کاشتکاروں کو ادائیگی یقینی بنائیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ اگلے سال ایسی صورتحال روکنے کیلئے صوبائی حکومتیں پیشگی اقدامات کریں۔ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے لیکن ہمارے کاشتکاروں کو گنے کے علاوہ دوسری فصلوں کی ملنے والی قیمتیں بھی منصفانہ نہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنا خون پسینہ بہا کر قیمتی فصلیں اگانے والوں کی محنت کا پورا معاوضہ ادا کیا جائے تاکہ ملک خوراک کی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہو بلکہ برآمد بڑھا کر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998