• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب سوال سپریم کورٹ کے اندر سے بھی اٹھنے لگے

اب تو سپریم کورٹ کے اندر سے بھی پاناما کے کیس میں اقامہ پر میاںنواز شریف کو نااہل قرار دینے کے خلاف آواز اُٹھ گئی۔ چلیں میاں نواز شریف اگر اعتراض کررہے تھے تو اُسے اس لیے نظر انداز کیا جا سکتا تھا کہ کیس ہارنے والا تو شور مچاتا ہی ہے کہ اُس کے ساتھ نا انصافی ہوئی لیکن اس کیس میں تو کچھ ریٹائرڈ ججوں کے ساتھ ساتھ وکلاء برادری کی ایک بڑی تعداد یہ کہتے سنی گئی کہ پاناما بنچ کا فیصلہ کمزور تھا اور اس فیصلہ سے کوئی اچھی مثال قائم نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ نواز شریف کی نااہلی کی سب سے زیادہ خوشی منانے والے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ سپریم کورٹ نے کمزور فیصلہ دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاناما کو چھوڑ کر اقامہ پر نواز شریف کو نااہل قرار دے کر سپریم کورٹ نے کمزور فیصلہ دیا۔ اور اب سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس فائز عیسیٰ نے سوال اٹھا دیا پاناما کیس میں نااہلی اقامہ پر ہوئی۔آج شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق شیخ رشید احمد کے خلاف انتخابی عذرداری کا کیس سنتے ہوئے گزشتہ روز جسٹس فائز نے سوال اٹھایا کہ کیا غلطی کرنے پر امیدوار نا اہل ہو گا اور کیا اس کا اطلاق سب پر ہو گا؟ جسٹس شیخ عظمت سعید جو پاناما بنچ میں بھی شامل تھے اور شیخ رشید کے خلاف بھی یہ کیس سن رہے ہیں‘ نے کہا کہ اگر کسی نے کاغذات نامزدگی میں اثاثہ ظاہر نہیں کیا اور وہ ثابت ہو جائے تو نااہل ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک طریقہ کار یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیکھا جائے کہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا یا غلطی ہو گئی؟ اس پر جسٹس فائز نے کہا کہ بات آ کر پاناما کیس کے فیصلے پر رکے گی، ایک اصول کے دو معیار نہیں ہو سکتے، غلطی ہے تو نا اہلی ہو گی۔ جسٹس عظمت نے کہا ہر کیس کے اپنے حقائق ہوتے ہیں، پاناما کیس میں کہیں پر بھی غلطی تسلیم نہیں کی گئی لیکن زیر غور کیس میں غلطی تسلیم کی گئی، دیکھنا ہو گا کہ غلطی جان بوجھ کر کی گئی یا غیر ارادی طور پر ہوئی۔ جسٹس فائز کا کہنا تھا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں کہیں پر بھی یہ بحث نہیں ہوئی کہ اثاثہ جان بوجھ کر چھپایا گیا یا غلطی ہو گئی، اصول قانون تو یہ ہے کہ اگر غلطی ہوگئی تو نیک نیتی اور بدنیتی کو دیکھنا پڑے گا، اگر میری کسی غلطی کا مجھے فائدہ نہیں ہو رہا تو اسے بدنیتی نہیں کہا جا سکتا لیکن پاناما کیس کے فیصلے نے طے کر دیا ہے کہ جب بھی کوئی امیدوار غلطی کرے گا تو الیکشن سے باہر ہے۔ جسٹس فائز نے شیخ رشید کے وکیل کو کہا کہ پاناما کیس میں آپ کے موکل درخواست گزار تھے یہاں وہ فریق مخالف، ایک انگلی کسی اور کی طرف اٹھائو گے تو چار آپ کی طرف ہوں گی، پاناما کیس میں معاملہ لندن فلیٹس کا تھا اور نا اہلی اقامہ پر ہوئی۔ اس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ پاناما نظرثانی فیصلے میں اس کا احاطہ کیا گیا۔ اس خبر سے ایک بات ظاہر ہو گئی کہ سپریم کورٹ کے جج حضرات بھی پاناما فیصلہ کے متعلق ایک جیسا نہیں سوچتے اور جو اعتراض باہر کیا جا رہا ہے وہ اعتراض سپریم کورٹ کے اندر بھی موجود ہے۔پاماناکیس سنتے ہوئے بنچ میں شامل ججوں کا کہنا تھا کہ پاناما فیصلہ تاریخی نوعیت کا ہو گا اور اُسے بیس سال تک یاد رکھا جائے گا۔ محسوس ہوتا ہے ایسا ہی ہو گا لیکن وجہ اس فیصلہ کی خوبیوں کی بجائے وہ نہ ختم ہونے والے تنازعات ہیں جو اس فیصلے سے جڑے ہوئے ہیں۔ خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ رشید کے کیس میں پاناما کیس میں شامل جج صاحب (جسٹس عظمت سعید) خود بھی شیخ صاحب کی طرف سے مکمل اثاثہ جات ظاہر نہ کرنے کے عمل کو اُن اصولوں کے تحت نہیں جانچنا چاہتے جن کا اطلاق انہوں نے نواز شریف کیس میں کیا جہاں نواز شریف کو اس بنیاد پر سزا دی گئی کہ بیٹے کی کمپنی سے متعلق تنخواہ جو وصول بھی نہ کی گئی کو کیوں ظاہر نہ کیا گیا۔ جو اصول پاناما کیس میں نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کے لیے اپنائے گئے اُن کا اطلاق عمران خان کے خلاف بھی نہیں کیا گیا جنہوں نے یہ تسلیم بھی کیا کہ اُنہوں نے اپنی آف شور کمپنی ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کی۔ اب دیکھنا ہے کہ شیخ رشید کے متعلق سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے جب شیخ صاحب نے تسلیم کیا اُن کے گوشوارے جس طرح ظاہر کیے گئے وہ درست نہ تھے اور یہ کہ اُن سے غلطی ہوئی۔ اگر شیخ صاحب کو نواز شریف اور جہانگیر ترین کی طرح آئین کی شق 62(1)(f) کے تحت سزا سنا دی جاتی ہے تو اُن کے لیے بھی پارلیمنٹ اور سیاست کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ آئین کی اسی شق کے متعلق کہ نااہلی کی سزا کا دورانیہ کتنا ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ میں ایک کیس میںفیصلہ محفوظ کیا ۔ اس فیصلہ کا پاکستان کی سیاست کو بلعموم اور نواز شریف اور جہانگیر ترین کو بلخصوص بے چینی سے انتظار ہو گا کیوںکہ اگر سپریم کورٹ اس فیصلہ میں نااہلی کی میعاد کو ـ’’جرم‘‘ کی سنگینی سے منسلک کرتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ ٹیکس گوشواروں سے متعلق Mis-declaration کرنے والے کو چند سال کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ ایسی صورت میںپاناما فیصلے سے اٹھنے والا تنازعہ تھم سکتا ہے۔ اگرچہ آئین کی شق 62(1)(f) کے تحت سزا پانے والا آج کی صورت حال میں ہمیشہ کے لیے نا اہل ہوتا ہے چاہے جرم کتنا ہی چھوٹا یا بڑا کیوں نہ ہو لیکن آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت ایک سزا یافتہ چور، ڈاکو، شرابی، زانی، قاتل حتیٰ کہ غدار بھی (اگر اُس کی سزا سزائے موت نہیں) اپنی جیل کی سزا مکمل کاٹنے کے پانچ سال بعد الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہو جاتا ہے۔ آئین کے تحت اخلاقی پستی میں سزا پانے والے مجرم کو اگر عدالت دو سال سے کم جیل کی سزا دیتی ہے تو ایسے مجرم کے لیے تو جیل سے رہائی پر ہی سیاست اور پارلیمنٹ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں سپریم کورٹ کو آئین کی شق 62(1)(f) کے تحت نا اہل قرار دیتے وقت نااہلی کی مدت کا تعین آٹیکل 63 میں درج سزائوں اور نااہلی کی مدت کے تناظر میں کرنا چاہیے۔ اگر سپریم کورٹ ایسا نہیں کرتی تو یہ کام پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے تاکہ جرم کی سنگینی کے تناظر میں نا اہلی کی مدت کا تعین ہو اور عدالتوں کو ایسے فیصلے نہ دینا پڑیں جو عدلیہ کو ہی متنازع بنا دیں۔

تازہ ترین