• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچ کیوں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے؟

بھوٹان کے موجودہ بادشاہ جگمے وینگ چُک کے والد جو 2006ء میں اپنے بیٹے کے حق میں دستبردار ہو گئے، انہوں نے ملکی ترقی کا تخمینہ لگانے کا ایک نیا پیمانہ متعارف کروایا۔ دنیا بھر میں مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی این پی کو ترقی کا بنیادی اشاریہ مانا جاتا ہے لیکن جگمے نگائے وینگ چُک نے جی این ایچ یعنی گراس نیشنل ہیپی نیس انڈیکس کو ترقی کا پیمانہ قرار دیا۔ اسی اصول کے تحت بھوٹان میں ہر سال یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مادی ترقی سے قطع نظر لوگ کس قدر مطمئن اور خوش ہیں۔شاید اسی تصور سے متاثر ہو کر اقوام متحدہ نے بھی مسرت کو ترقی کی علامت کے طور پر تسلیم کرلیا اور 2012ء سے لیکر اب تک ہر سال عالمی ماہرین کے تعاون سے مسرت کا عالمی اشاریہ یا ورلڈ ہیپی نیس انڈیکس مرتب کی جاتی ہے اوربتایا جاتا ہے کہ کس ملک کے باشندے کتنے خوش ہیں اور میں یہ سوچ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا کہ تازہ ترین درجہ بندی کے مطابق پاکستان نے حصولِ مسرت کی دوڑ میںجنوبی ایشیاکے تمام ممالک کوپیچھے چھوڑ دیا ہے ۔156ممالک کی فہرست میں چین 86ویں نمبر پر ہے مگر ہمارا وطن عزیز 75ویں نمبر پر آگیا ہے ۔بھارت نے جانے کیسے روگ پال رکھے ہیں کہ پاکستان سے 57درجے نیچے 133ویں نمبر پر ہے ۔بنگلہ دیش، سری لنکا، انڈونیشا، مصر ،ایران اور اردن سمیت کتنے ہی ممالک خوش رہنے کے اس مقابلے میں ہم سے کوسوں دور ہیں جب وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے یکے بعد دیگرے پانچ ٹویٹس کرکے یہ خوش خبری سنائی اور غیر محسوس انداز میں اس کامیابی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی تو میرا ماتھا ٹھنکا۔کچھ دیر بعد ہی میں نے اس سوال پر غور کرنا شروع کیا کہ پاکستانی آخر اس قدر آنند کیوں ہیں؟ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ،معاشی ترقی کی رفتار بہت تیز ہے ،مسکراہٹیں بکھیرنے والے بالی وڈ اسٹارز کی بہتات ہے ،آخر کس چیز کی کمی ہے؟ بہت دیر غور و فکر کے بعد یہ فرق سمجھ میں آیا کہ وہاں اس قدر فعال عدلیہ نہیں ہے جو عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کر سکے۔یہ گتھی سلجھ جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر ورلڈ ہیپی نیس انڈیکس پر نظر ڈالی تو ایک اور الجھن کا شکار ہو گیا۔دفعتاً خیال آیا کہ باقی سب کی تو خیر ہے مگر ہمارے ہر دلعزیز ہمسائے چین میں لوگ چین کی بانسری کیوں نہیں بجا رہے؟صدر شی جن پنگ کی تاحیات صدارت کا مرحلہ طے ہو چکا ،ملک میں عدم استحکام کا کوئی امکان نہیں ،پوری دنیا ملکر بھی چین کی معاشی پیشرفت کو نہیں روک سکی ،غربت اور بے روزگاری کی شرح بہت کم ہے ،تو پھر کیا غم ہے ؟یہ پہیلی نسبتاً مشکل تھی مگر میں نے اسے بھی بہت جلد حل کر لیا اور اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ چین میں پاکستان کی طرح آبادی میں اضافہ کرنےکی آزادی نہیں اس لئے چینی باشندے افسردہ رہتے ہیں ۔
یوں تو ملک کے ہر کونے میں خوش بختیوں کے ڈیرے اور آسودہ حالی کے بسیرے ہیں لیکن فرزند ِ نوکنڈی صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے بعد بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے ۔بلوچستان وہ بدقسمت صوبہ ہے جو بیش قیمت معدنیات سے مالامال ہونے کے باوجود غربت کی دلدل میں دھنستا جا رہا تھا ۔بے روزگاری آخری حدوں کو چھو رہی تھی ۔تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں ناپید تھیں، وفاق نے مقامی سرداروں کو ساتھ ملا کر بلوچوں کا استحصال کیا ،لیاقت علی خان سے شاہد خاقان عباسی تک ہر دور میں مصنوعی اور نمائشی نوعیت کے اقدامات تو کئے گئے مگر بلوچ عوام کا احساس ِمحرومی دور کرنے کے لئے کوئی حقیقی اور عملی کوشش نہیں کی گئی ۔پرویز مشرف کے دور میں ـ’’بلوچستان پیکیج ـ‘‘ کے نام پر خیرات دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ،اسے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور شاہد خاقان عباسی نے بھی جاری رکھا ،پیپلز پارٹی کے دور میں ’’آغاز حقوق بلوچستان پیکیج ‘‘کا لولی پاپ دیا گیا تو موجودہ حکومت نے بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کے لئے دس سالہ پیکیج کی طفل تسلی دی ۔لیکن بلوچ عوام کو ان ترقیاتی منصوبوں میں کوئی دلچسپی نہیں ،وہ تو اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگتے ہیں ۔ان کا مطالبہ تو بس اتنا ہے کہ ان کی دھرتی ،ان کے صوبے پر ان کا اختیار ہو ۔وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ انہیں دوسرے یا تیسرے درجے کا پاکستانی نہ سمجھا جائے اور مساوی حقوق حاصل ہوں ۔ سڑکیں چاہے ناہموار اور راستے دشوار ہوں مگر ان پر چلنے والے ’’غائب ‘‘ نہ کر دیئے جائیں ۔گھربیشک مٹی کی شکستہ دیواروں پر ایستادہ ہوں مگر ان میں کسی کو بغیر اجازت گھسنے کی جرات نہ ہو ۔
ان کرم فرمائوں کا شکریہ جنہوں نے مسلسل جبر کے ستائے اور تنگ آئے بلوچوں کی دل کی آواز سنی اور ان کا احساس محرومی دور کرنے کے لئے پہلی مرتبہ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ بلوچستان کو دینے کا فیصلہ کیا ۔اگرچہ اب بھی بلوچستان میں جنم لینے والا ہر دسواں بچہ شیر خوارگی کے دور میں مر جاتا ہے ،آج بھی بلوچستان کے 70فیصد علاقوں میں انسان جوہڑ کاگدلا پانی پینے پر مجبور ہیں، نومنتخب چیئرمین سینیٹ کے آبائی ضلع چاغی میں ایک بھی گائناکالوجسٹ نہیں اور زچگی کے دوران 370کلومیٹر دور کوئٹہ لے جاتے ہوئے بیشتر خواتین راستے میں ہی دم توڑ جاتی ہیں ،وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے آبائی علاقے میں لوگ آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں لیکن اس غربت وتنگدستی کے باوجود لوگ خوش ہیں کہ ان کا احساس محرومی ختم کردیا گیا ہے ۔گوادر کے مکین ساحل سمندر پر جشن منا رہے ہیں کیونکہ صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ بننے کے بعد گوادر پورٹ کا انتظام صوبائی حکومت کے سپرد کر دیا گیا ہے اور اب اس بندرگاہ سے جو آمدنی ہو گی اس کا بیشتر حصہ مقامی باشندوں کی فلاح و بہبود پرخرچ کیا جائے گا اور باقی محاصل صوبائی حکومت کے خزانے میں جمع ہونگے ۔اسی طرح دالبدین اور نوکنڈی سمیت ضلع چاغی کے تمام مکین بھی روائتی بلوچ رقص لیوا میں مشغول ہیں کیونکہ نہ صرف وہاں بیش قیمت معدنیات کی کانوں کی رائلٹی چاغی کو دیدی گئی ہے بلکہ ریکوڈیک میں سونے اور تانبے کے سب سے بڑے ذخائر پر مقامی افراد کا حق ملکیت بھی تسلیم کر لیا گیا ہے ۔سابق وزیر اعلیٰ سردار ثنا اللہ زہری کے علاقے خضدار کے رہائشیوں کو تو افسردہ ہونا چاہئے کہ ان کے علاقے کی نمائندگی ختم ہو گئی ہے مگر وہ اس بات پر خوش ہیں کہ جب سے عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلیٰ اور صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے ہیں ،آواران ،خضدار اور کوہلو سمیت تمام شورش زدہ علاقوں سے مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ تھم گیا ہے اور جس جس علاقے کے جو لوگ لاپتہ تھے وہ سب اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں ۔اس سے پہلے بلوچستان میں مسرت و شادمانی کا ایسا حسین دور تب دیکھنے کو ملا جب پرویز مشرف نے فرزند بلوچستان میر ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنا کر چھوٹے صوبے کا احساس محرومی ختم کرنے کی کوشش کی اور واقفان حال بتاتے ہیں کہ تب بھی ظفر اللہ جمالی کے حلف اٹھاتے ہی حالات نے ایسے ہی پلٹا کھایا جیسے صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ بننے کے بعد ترقی و خوش حالی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ہاں البتہ اس پرمسرت کامیابی کا کریڈٹ احسن اقبال یا ان کی حکومت کو نہیں جاتا بلکہ ان محسنوں کو جاتا ہے جنہوں نے پسِ پردہ رہتے ہوئے بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کی کوشش کی ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین