• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وفاقی وزیر صاحب سے ملاقات طے تھی انہوں نےمجھے بتایا کہ وہ پندرہ سے بیس منٹ تک اپنی وزارت کے آفس پہنچ جائیںگے لہٰذا آپ بھی پندرہ بیس منٹ تک آفس آ جائیں۔ میں ان کی وزارت کے قریب ہی تھا۔ اس لیے جلد ہی ان کے آفس پہنچ گیا۔ وزیر صاحب نےا سٹاف کو چونکہ پہلے سے آگاہ کر رکھا تھا اس لیےانہوں نے مجھے وزیر صاحب کے آ فس میںبیٹھا دیا۔ تھوڑی ہی دیرمیں وزیر صاحب بھی پہنچ گئے دعا سلام کے بعد وزیر صاحب اپنی آفس چیئر کی بجائے صوفوں پر ہی بیٹھ گئے ساتھ ہی وزیر صاحب کے پی ایس بھی آ گئے اور انہوں نے بتایا کہ فلاں فلا ںصاحب فلاں فلاں کے ریفرنس سے آپ سے ملاقات کےلیےبیٹھے ہیں۔ وزیر صاحب نے پی ایس سے آنے والی فون کالز کی بابت معلوم کیا تو بھی پی ایس نے ایک لمبی فہرست بتادی اور بتایا کہ سر تقریباً سب ہی یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ وہ آپ کو پی ایس ایل فائنل کے ٹکٹس کا کہاتھا اس کا کیا بنا۔ وزیر صاحب نے دوبارہ سوال کیا کہ جہاں فون کیا تھا وہاں سے پی ایس ایل کے فائنل کے ٹکٹس یا پاسز آئے ہیں تو پی ایس نے کہا کہ جی سر انہوں نے صرف دو ٹکٹس بھیجے ہیں۔ وزیر صاحب نے زور سے صوفےپر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ دو پاسز میں کس کس کو دوں گا۔ انہوں نے پی ایس کو فوراً دونوں پاسز کی کسی کو خبر نہ ہونے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ انتظار میں بیٹھے ہیں انہیں اندر بھیج دیں۔ وزیر صاحب ساتھ ساتھ مجھ سے معذرت بھی کرتےرہے کہ میں ذرا یہ معاملات نمٹا لوں پھر سکون سے بات کرتے ہیں۔ پھر انکے انتظار میں بیٹھے آٹھ دس لوگ انکے آفس میں آ گئے۔ اُن میں سے تقریباً سب کا یہی کام تھا کہ انہیں لاہور میں ہونے والے دو اور کراچی میں کھیلے جانے والے فائنل کے ٹکٹس درکار ہیںاور وزیر صاحب اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے انہیں یہ پاسز یا ٹکٹس کا بندوست کرکے دیں۔ جبکہ ان میں سے کچھ کی ڈیمانڈ تھی کہ انہیں 23 مارچ کی ہونے والی مسلح افواج کی پریڈ کےپاسز درکار ہیں۔ وزیر صاحب سب کی ڈیمانڈز سن کر میری طرف دیکھتے اور مسکرا دیتے۔ بلکہ بالآخر انہوں نے مجھے کہا کہ آپ ساری صورتحال جانتے ہیں مجھے ریسکیو کریں۔ میں وزیر صاحب کی اس چال کو سمجھ گیا کہ وہ نکلنےکےلیےمجھے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے مجھے بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے لیکن اس وقت سینیٹ کے الیکشن کی طرح سب سے مشکل کام یہی ہے کہ آپ پی ایس ایل کے پاکستان میں کھیلے جانے والی کس میچ کے ٹکٹس یا پاسز حاصل کر سکیں اور 23 مارچ کی پریڈ کے پاسز کی بھی ڈیمانڈ میچز کی طرح ’’کھڑکی توڑ‘‘ہے لیکن دونوں معاملات ’’پر جلا نے والے ‘‘ہیں کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے 23 مارچ کی پریڈ کےلیے پاسز ایک خاص سیکورٹی کلیئرنس کے بعد ہی متعلقہ افراد کو مل سکتےہیں جس کا اب وقت گزر گیا ہے جبکہ میچز دیکھنے کی ڈیمانڈ کی سطح بھی بہت اونچی جا رہی ہے اور ہر شخص خاص طور پر یوتھ اسٹیڈیم میں جا کر میچ سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ ٹکٹس یا پاسز لینے یا تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہے لیکن یہ ضر و ری ہے کہ کرکٹ ہماری قوم کا جنون ہے اور اس کےلیے ہمیں اپنے اسٹیڈیمز میں تماشائیوں کی گنجائش میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ تماشائی لطف اندوز ہو سکیں ۔جبکہ 23 مارچ کو مسلح افواج کی پریڈ بھی، خاص طور پر فلائنگ مارچ پاسٹ دیکھنے کےلیے میں نے بہت جوش و خروش دیکھاہے۔ اس میں بھی سکیورٹی کے معاملات کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو اس پریڈ میں آمد کو ممکن بنانا چاہیے کیونکہ لہو کو گرم رکھنےکےلیے یہ ایک شاندار ذریعہ ہے۔ وفاقی وزیر صاحب میری اس تقریر سے متاثر ہوئے اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آ ئے ہو ئے مہما نو ں سے کہنے لگے ،بھئی بہت مشکل کام ہے لیکن کوشش کرتے ہیں آپ میرے پی ایس سے معلوم کر لیجئے گا۔ اور ڈیمانڈ کرنے والوں کے جانے کے بعد پی ایس کو کہنے لگے یار تم ایک وفاقی وزیر کے پی ایس ہو اور یہ چھوٹا سا کام نہیں کروا سکتے۔ پی ایس نے ناموں کی ایک لمبی سی فہرست بناتے ہوئے کہا کہ سر ان سب سے بات کی ہے سب کہتے ہیں کہ ناممکن ہے اور پھر کرکٹ بورڈ کے ایک صاحب کا نام لیتے ہوئے کہا کہ اُن سے 100 ٹکٹس مانگے تھے انہوں نے دو بھیجے ہیں۔ اور منسٹر صاحب اس بات پر بلند قہقہ لگا کر کہنے لگے ہم جیسا بھی کوئی بے بس وزیر ہو گا۔
kk

 

 

تازہ ترین