• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پشتین ،  پشتون اور پاکستان

کوئی تحریک اگر برسوں سے دُکھے ہوئے دِلوں اور بار بار زخم کھاتی عزت و ناموس کے سہارے سر اٹھاتی ہے تو اِسے عوامی حمایت حاصل کرنے اور پھر عظیم شہروں کی مشہور شاہ راہوں تک پہنچنے کے لئے کسی بھی مرحلے پر اشرافیہ کی حمایت، اجازت یا تعاون کی ضرورت نہیں پڑتی۔ فی الحال کوئی بڑا دعویٰ کرنا قبل از وقت ہے لیکن پشتون تحفظ تحریک کا لانگ مارچ بظاہر ملک کے اِستحصال زدہ غیرمنظم عوام اور حقوق کے محاذوں پر بھٹکی ہوئی قیادتوں اور تحریکوں کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہواہے۔

میں نے گزشتہ سال 17اگست کو شائع کردہ مضمون میں اِس پیش رفت کی نشاندہی کی تھی کہ ماضی میں آمریت کے کندھوں پر سوار ہوکر سیاست میں قدم رکھنے والا نواز شریف آج، اشرافیہ کی پر اسرار ترجیحات کے سبب، پنجاب کی اِستحصال زدہ اکثریت کا سب سے متحرک نمائندہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا موڑ ہے کہ گزرے وقتوں میں اشرافیہ کی علامت سمجھی جانے والی نون لیگ اب ملک میں مزاحمتی سیاست کا اہم ستون بن گئی ہے۔ پنجاب کے معتدل مزاج، روشن خیال اور استحصال زدہ طبقات کے غیر منظم اور غیرمعروف نمائندے نون لیگ کے اِس دور حکومت میں چھوٹے صوبوں کی محرومیوں پر آواز اٹھانے والوں کے نہ صرف ہم خیال ہوتے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ اِن کے ساتھ تیزی سے ہم آہنگ بھی ہوتے جارہے ہیں۔

پشتون تحفظ تحریک بھی حقوق کے معاملات پر استحصال زدہ پنجاب میں تیزی سے متحرک ہوتی ہوئی اکثریت کے قریب کھڑی محسوس ہوتی ہے۔ خاص بات یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی شہریوں اور سیاسی حلقوں کے علاوہ اندرون ملک بیشتر سیاسی جماعتوں نے مذکورہ لانگ مارچ کی کسی نہ کسی انداز میں حمایت کی ہے۔ اِس پیش رفت میں سوشل میڈیا یقیناً سب سے فعال کردار ادا کررہا ہے لیکن ملک کے سیاسی پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ تبدیلیاں زیادہ حیران کن نہیں! خاص طور پر گزشتہ سات دہائیوں میں پشتونوں کا مستقل اِستحصال پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔نہ جانے یہ اتفاق ہے یا کسی نامعلوم سازش کا نتیجہ کہ برصغیر میں پشتونوں کو زوال کی جانب دھکیلنے کا سلسلہ کئی صدیوں پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ یہ داستان ایک جانب بابر کے ہاتھوں ابراہیم لودھی کی شکست یا پھر ہمایوں کے ہاتھوں سوری سلطنت کے خاتمے سے شروع کی جاسکتی ہےاور دوسری جانب یہ کہانی افغان جنگجوئوں کے خلاف مرہٹوں کی فتوحات اور پھر پشاور پر اِن کی چڑھائی، یا پھر سکھوں کے ہاتھوں افغانوں کی شکست سے بھی شروع ہوسکتی ہے لیکن مضمون کی طوالت کی حدود مقرر ہیں لہٰذا بات خان عبدالولی خان کے ایک بیان سے سمجھی جا سکتی ہے جس میں انہوں نے پشتونوں کو جہاد کے نام پر بار بار استعمال کرنے پر پاکستانی حکمرانوں کی شدید مذمت کی تھی!یہ سچ ہے کہ ایک زمانے تک جہاد کے نام پر تیار کئے گئے مجاہدین میں پشتون اکثریت میں ہوا کرتے تھے۔ طالبان کی صورت میں پشتون جہادیوں کی تعداد اگرچہ آج بھی سب سے زیادہ ہے، لیکن اِس پشتون اقلیت کے ہاتھوں امن عامہ کی صورتحال کا بدترین شکار بھی خود پشتون ہیں۔ افواج کی تعیناتی اگرچہ دہشت گردی کی روک تھام میں فیصلہ کن حد تک موثر ثابت ہورہی ہے لیکن جگہ جگہ چیک پوسٹس پر مرد، خواتین اور بزرگوں کو پیش آنے والی غیرمعمولی اور مسلسل زحمت تحریک کے مطالبات میں شامل ہے۔یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ جہاں اس کمیونٹی کا آبائی صوبہ خیبر پختونخوا تعلیم، روزگار اور ترقی کے معاملے میں ہمیشہ پیچھے رہا ہے، وہیں پشتونوں کے روایتی طور پر مضبوط ایمان کو ملک کے چند تعلیمی اداروں اور سیاسی اکھاڑو ں میں بار بار استعمال کیا جاتا رہاہے۔ سوویت یونین کے خلاف امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے لڑی گئی طویل افغان جنگ میں پشتون جانوں کا بے دریغ ضیاں اور جنگ کی آڑ میں قبائیلی طرز معاشرت میں مستقل مداخلت تاریخ کا اِک سیاہ باب ہے۔

افغان جنگ کے سبب ملک کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی سطحوں پر پہنچنے والا نقصان ناقابل تلافی ہے۔ سکیورٹی فورسز خاص طور پر پاک افواج آج بھی اِس جنگ کے باقیات سے نمٹنے کے لئے مسلسل قربانیاں دے رہی ہے لیکن پشتون معاشروں پر اِس جنگ کے اَثرات انتہائی مایوس کن ہیں۔ ادھر کراچی میں اے این پی کے ایک سابق رہنما یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اسّی کی دہائی کے وسط میں کراچی میں ازسر نوسیاسی ماحول سازی کے لئے پختونوں کا خون بے دریغ بہایا گیا تھا!

افغان جنگ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف پشتونوں کے درمیان کہیں واضح اور کہیں مدھم تقسیم کا بھی بنیادی سبب رہی ہے۔ برسوں سے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی خیبرپختونخوا میں موجودگی صوبے کی معاشرت اور امن عامہ سے متعلق مسائل کا مستقل سبب ہے۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے پشتون علاقوں میں مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپوں، بنتے بگڑتے اتحادوں، علاقے پر عارضی و طویل قبضوں اور دیگر معاملات پر اختلافات کے سبب پشتون کمیونٹی مستقل سیاسی قیادت کے بحران کا شکار رہی ہے۔

ستم یہ کہ پاکستان کی تمام منتخب اور غیرمنتخب حکومتیں، اشرافیہ و تمام پشتون قوم پرست سیاسی پلیٹ فارمز اس کمیونٹی کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں پشتون حقوق کا نعرہ لگانے والے زیادہ تر سیاست دان طاقتور اشرافیہ سے ’’باہمی سہولت اور آرام‘‘ کا دانستہ یا غیردانستہ رشتہ قائم کرکے دیگر تمام سیاسی تنظیموں کی طرح خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے ہیں۔ عام تاثر ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کراچی کے بے گناہ شہری نقیب اللہ محسود کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد متحرک ہوتی دیکھی گئی ہے۔ یہ معاملہ در حقیقت جنوبی وزیر ستان میں آپریشن کے دوران ہزاروں خاندانو ں کی نقل مکانی سے شروع ہوتا ہے۔ انہی بے گھر افراد میں ایک نوجوان منظور پشتین نے اُن خاص حالات کے پیش نظر پشتونوں کے حقوق کے لئے پہلی بار آواز اُٹھائی! متعلقہ علاقوں میں بارودی سرنگوں کا خاتمہ، گم شدہ پشتونوں کی بازیابی، پشتونوں کا معاشی وجانی تحفظ اور اِن کے ساتھ ریاست کا مہذب سلوک اِس پلیٹ فارم کے انتہائی سادہ اور معصوم مطالبات میں شامل ہیں۔ -منظور پشتین فی الحال نو عمر ہیں؛ لہٰذا انہیں زندگی میں ابھی بہت سی اونچ نیچ دیکھنا ہے۔ لیکن اِن کے عزم میں سچائی اور بے باکی بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ محسود قبائل کو درپیش مسائل کی بنیاد پر قائم کی گئی اِس تحریک کو منظور پشتین انتہائی دانشمندی کے ساتھ پشتون تحفظ تحریک کے وسیع تر پلیٹ فارم پر لے آئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ سادگی، ایمانداری اور حب الوطنی کے جذبوں سے سر شار باشعور نوجوانوں پر مشتمل یہ محاذ چاروں صوبوں کی اِستحصال زدہ اکثریت کے لئے جلد آواز اٹھائے گا اور اس مقصد کے لئے اپنے موجودہ پلیٹ فارم کو یوں ہی وسعت دیتا رہے گا، ملک بھر کے عوام کے دل جیتنے تک۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین