• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری،نواز شریف کے موقف کو قوم کی بھرپور پذیرائی

سیاسی ڈائری،نواز شریف کے موقف کو قوم کی بھرپور پذیرائی

اسلام آباد( محمدصالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) جو ڈیشل مارشل لاء کے نفاذ کی فرمائش دراصل عمران خان کے ذہن کی تخلیق ہے،مارشل لاء جب ایک مرتبہ نافذ ہوجائے تو پھر وہ رخصت اپنی صوابدید اور سہولت کے مطابق ہوتا ہے وہ کسی عدالت کے حکم یا مشاورت کا پابند نہیں رہتا،نواز شریف نے اپنے خلاف فیصلوں کے ضمن میں جو موقف اختیار کیا ہے اسے پوری قوم کی طرف سے بھرپور پذیرائی مل رہی ہے اور ہر گزرے دن کے ساتھ ان کےلئے جذبات میں اضافہ ہورہا ہے۔جوڈیشل مارشل لاء کا تصور چار سال قبل اس وقت منصہ شہود پر آیا تھا جب عمران خان نے ایمپائر کی انگلی کی توقع پر وفاقی دارالحکومت میں نوٹنکی لگائی تھی جو نام نہاد لانگ مارچ کے بعد دھرنا کہلائی، اس کا انکشاف سرکردہ جمہوریت پسندرہنما جاوید ہاشمی نے کیا تھا جنہوں نے خان کی زبان سے اس پورے گھنائونے منصوبے کی روداد سنی تھی پھر اسے طشت ازبام کردیا تھا اور عمران سے اپنی راہیں جدا کرلی تھیں اور قومی اسمبلی کی رکنیت بھی ان کے منہ پر دے ماری تھی ، جاوید ہاشمی کے انکشافات میں سپریم کورٹ کا حوالہ بھی موجود تھا اس منصوبے کی بازگشت یہاں اس وقت بھابڑا بازار کے ایک سیاسی یتیم کی زبان سے سنی گئی جسے اپنی کالی کرتوتوں کے باعث غرقاب ہونےکا یقینی خطرہ لاحق ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی اس کا بازو پکڑ لے اوروہ ڈوبنے سے بچ جائے۔ اس نیم خواندہ شخص نے جو کبھی اپنی ڈگریوں کا بھی ذکر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ نگران حکومت کے قیام میں عمران خان کا مشورہ اورمرضی شامل نہ ہوئی تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ آئین سے نابلد ہونے کا شاخسانہ ہے کہ اس طرح کی بات اس کی نوک زبان پر آئی ہے ازروے آئین قومی اسمبلی میں قائد ایوان( وزیراعظم )اور قائد حزب اختلاف باہم مشاورت سے عبوری وزیراعظم کا تقرر عمل میں لائیں گے اس میں کسی تیسرے شخص کی رضا مندی کا کہیں گزر نہیں اگر تحریک انصاف کے سربراہ کسی شخص کو موزوں خیال کرتے ہیں تو انہیں اس کا نام وزیراعظم کو پیش کر دینا چاہیے یا پھرقائد حزب اختلاف کو اس بارے میں آگاہ کردینا چاہیے۔ بعض لوگ جنہیں اپنی تمام تر چرب زبانی کے باوجود اپنا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے ،ماوریٰ آئین تجاویز پیش کرنے کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔ ایسے لوگ جن سے تعلق کا دم بھرتے ہیں ان کےلئے بھی باعث شرمندگی اور خفت کا موجب بنتے ہیں۔ جوڈیشل مارشل لاء کا سیدھے سابہائو مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ عدالتیں ملک میں مارشل لا نافذ کردیں، ہر چند اس مطالبے کو مشروط کردیاگیا ہے کہ یہ فوجی بندوبست انتخابات کے انعقاد کی مدت تک ہو اسے بھولنا نہیں چاہیے کہ مارشل لاء جب ایک مرتبہ نافذ ہوجائے تو پھر وہ رخصت اپنی صوابدید اور سہولت کے مطابق ہوتا ہے وہ کسی عدالت کے حکم یا مشاورت کا پابند نہیں رہتا۔ آئین کی دفعہ چھ کے تحت جو سنگین غداری کے زمرے میں آتی ہے مارشل لاء نافذ کرنے جس کی وجہ سے آئین معطل یا منسوخ ہو ایسا جرم ہے جس کی سزا موت ہے اگر اس جرم کے ارتکاب کےلئے اکسا یا جائے یا اس کا مشورہ دیا جائے تو اس کےلئے بھی سزا وہی ہونا چاہیے جو اعانت مجرمانہ کے ذیل میں آتی ہے۔ جو ڈیشل مارشل لاء کے نفاذ کی فرمائش دراصل عمران خان کے ذہن کی تخلیق ہے اس کا جھنڈا اٹھانے والوں کو فوری طور پر آئین کی دفعہ چھ کے تحت عدالتی کٹہرے میں لانے کےلئے فوری صلاح مشورہ ہوناچاہیے تاکہ کوئی دوسرا سرپھیرا ایسی بات دوبارہ نہ کرڈالے۔ اس امرکا امکان موجود ہے کہ جوڈیشل مارشل لاء کی اصطلاح کے بارے میں اس کے محرکین یقیناً کوئی تاویل نکالنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ملک کے صائب الرائے طبقے نےاس تجویز کی سخت ترین لفظوں میں مذمت کردی ہے۔ اسی دوران حکمران پاکستان مسلم لیگ کے تاحیات قائد سبکدوش وزیراعظم نواز شریف نے استفسار کیا ہے کہ توہین توہین کی رٹ لگانے والے یہ بتائیں کہ عوام کے فیصلے کی توہین ہوئی ہے وہ اپنی درخواست کہاں دائر کریں، انہوں نے نشاندہی کی ہے کہ نام نہاد پاناما کے فیصلے کے بارے میں اب تو سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں ایک فاضل جسٹس صاحب نے کھلے لفظوں میں بیان کردیا ہے کہ مقدمہ پاناما کا تھااور نا اہلی اقامہ پر کردی گئی ہے، نواز شریف کا کہنا تھا کہ جو بڑھ بڑھ کر باتیں کرتےتھے ان کی اپنی بدعنوانی کا معاملہ سامنے آگیا ہے نواز شریف نے جنہیں ایک متنازع فیصلے سے سخت زک پہنچائی گئی ہے اور جس سےملک کو بھی شدید گزند پہنچی ہے کربناک لہجے میں کہاکہ ان کے خلاف بلیک لاء ڈکشنری کا سہارا لےکر فیصلہ تحریر کیاگیا اداروں کی عزت کرتے ہیں لیکن ان کے معاملے میں جو فیصلہ آیا وہ قوم اور ان کی نگاہوں میں ٹھیک نہیں تھا۔

تازہ ترین