• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت لاچار اور بے بس، 70ء کا دور واپس آگیا، سیاستدان متحد نہ ہوئے تو ذلیل ہونگے، فضل الرحمٰن

جمہوریت لاچار اور بے بس، 70ء کا دور واپس آگیا، سیاستدان متحد نہ ہوئے تو ذلیل ہونگے، فضل الرحمٰن

کراچی (اسٹاف رپورٹر‘ایجنسیاں) متحدہ مجلس عمل کے صدر اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ہمارے اداروں کی ذہنیت غلامانہ ہے ،وہ اس غلامانہ ذہنیت سے نکلنے کیلئے تیار نہیں‘ہمارے ادارے سیاسی نظام کو سوالیہ نشان بنارہے ہیںجبکہ لوگوں کے دل میں عوامی نمائندوں کیلئے نفرت پیداکی جارہی ہے‘جب اپنے ہی لوگوں کو دشمن کہاجائے گاتوحالات کیسے بہتر ہوں گے‘ملک میں جمہوریت لاچار اور بے بس ہے۔ سب کو پتہ ہے فیصلے کہاںا ور کون کرتا ہےمگرا س کا اظہار مشکل ہے‘ملک میں سیاست دان اور سیاسی نظام سب سے زیادہ مظلوم ہے‘ سیاست دانوں نے متحد ہو کر کوئی نیا میثاق نہیں کیا تو پھر انہیں مزید تذلیل کا شکار ہونا پڑے گا‘1970ءکا دورواپس آگیا ہے ‘ ہمارے سیاسی دفاعی مالیاتی ادارے بین الاقوامی دبائو میں رہتے ہیں اور انہی کے زیراثر رہ کر پالیسیاں بناتے ہیں ‘ہم اپنی دفاعی صلاحیت بھی اپنے اختیار سے استعمال نہیں کر سکتے۔ ہمارے فیصلے آئی ایم ایف، جنیوا، انسانی حقوق، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے تابع ہیں‘ ہمیں بین الاقوامی معاملات میں جکڑ لیا گیا ہے‘ ہماری معیشت آزاد نہیں‘ ہمارا بجٹ آئی ایم ایف کی ایما پر بنتا ہےقوم اضطراب میں ہے اور اس صورت حال سے چھٹکارا چاہتی ہے۔ا ن خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو مقامی ہوٹل میں صحافیوں کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے سے خطاب اور صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قوتوں نے کمزو ر ممالک کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہیں ہم اپنی دفاعی قوت استعمال نہیں کرسکتے‘ انہوں نے کہا کہ ہم 70سالوں میں آزادی کے دعویدار اور طلباگار ر ہیں‘ جتنی بے بس اور لاچارجمہوریت ہم دیکھ رہے ہیں وہ دنیا میں کہیں نہیں ہیں ۔ان کا کہناتھا کہ ہم نے ایم ایم اے کو دوبارہ فعال کرکے مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی دعوت دی ‘ہم نظریاتی سیاست کو فروغ دینا چاہتے ہیں اس سلسلے میں میڈیا ہمارا ساتھ دے‘ انہوں نے کہا کہ ماضی میں باہر سے شخصیا ت کو لاکر ہم پر حکمراں کی حیثیت سے مسلط کیا گیا ‘ہم پر بین الاقوامی ایجنڈو ں کی صورت میں حکمراں مسلط کیے گئے‘ایم ایم اے کے سربراہ نے کہاکہ ہمارا میڈیا بھی ایک خاص سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے‘ ایک جماعت یا گروہ اپنے لوگوں میں کنزرویٹو فرینڈز آف اسرائیل (سی ایف آئی )کے لوگوکے نیچے بڑے بڑے دعوے کرتا ہے لیکن اس کو پوچھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ۔دراصل امت مسلمہ پر دہشت گردی کا ایک خاص لیبل لگا کر ان کو آپس میں لڑا دیا گیا اور تقسیم در تقسیم ہوئی ۔ جب ہمارے اپنے ہی ادارے اپنے ہی اندر کے لوگوں کو دشمن کہیں گے تو پھر حالات بہتر نہیں ہو سکتے ‘ ہم نے اپنے مذہب کے ساتھ بھی بہت ظلم کیا ‘ اس کو صرف عبادات تک محدود رکھا ہے ۔میڈیا نے ایک خاص سوچ کو پروان چڑھایا ‘آج میڈیا میں امت مسلمہ اور قوم کے حقیقی مسائل کے بجائے سیاست دانوں کی شکل میں چور تلاش کیے جا رہے ہیں ۔ ہمارے ادارے ، عدلیہ ،ا لیکشن کمیشن سب سیاسی نظام کو سوالیہ نشان بنا رہے ہیں اور عوام کے دلوں میں ایک خاص نفرت بٹھائی جا رہی ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کے نمائندوں کے لیے نفرت ہو‘ ہم اپنے سیاسی نظام کو انتہائی کمزور کر رہے ہیں ۔خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی ہاؤس کے باہر بم رکھا گیا ۔ بم رکھتے ہوئے آدمی پکڑا اور اس کو چھڑانے کے لیے کون آیا تھا ، سب کو معلوم ہے ۔ طاقتور قوتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ سیاسی قوتیں کمزور ہوں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مشرف کے دور میں نیب نے بہت ساری ریکوریاں کیں ۔ جب اس کی فہرست سامنے آئی تو پتہ چلا کہ سب زیادہ ریکوریاں جرنیلوں ، دوسرے نمبر پر بیوروکریٹس اور تیسرے نمبر پر سیاست دانوں کے نام تھے ۔ اس سے ہی اندازہ لگائیں کہ کون کس حد تک ملوث ہے ۔حکومت میں شامل ہونے کا مقصد ذاتی مفادات نہیں بلکہ قوم کے وسیع تر مفاد اور نظریات کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا ہے ۔

تازہ ترین