• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا تنازع بعد میں، پہلے سپہ سالار افواج پاکستان جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ پر ایک گفتگو!
ریاست میں اعلیٰ، درمیانے اور عام اہلکاروں کے سروس رولز ملکی آئین و قانون کا حصہ، ان پر عمل درآمد ایک ریاستی روٹین، چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ جلیلہ بھی ساری دنیا میں موجود ہے، ساری دنیا کے ممالک میں ان کی تعیناتی بھی ہوتی ہے، وہ ریٹائر بھی ہوتے ہیں مگر حسرت ہی رہی، جو ان کے پریس میں ان کی تعیناتیوں یا ریٹائرمنٹوں کو ایک قیامت خیز سنسنی سے بھرپور وقوعے کے طور پر سامنے لایا جائے، سواد اعظم چاہے سڑکوں پر دکھائی نہ دے لیکن سوسائٹی کے گنے چنے افراد اور گروہ کسی چیف آف آرمی اسٹاف کی ریٹائرمنٹ کو ایشو بنائیں، اس پر جلوس نکالیں!
گویا یہ تسلیم کیا جانا چاہئے جس کے مطابق ’’جن حالات میں یہ فیصلہ کیا گیا، اگر انہیں مدنظر رکھا جائے تو پھر اسے درست ہی سمجھا جائے گا کہ غیر متنازع قومی شخصیات کی بے ضرورت، بے وقت، بے جا اور بے سبب پتنگ اڑانا بھی عیاری کے زمرے میں آتا ہے۔ خداوندا تیرے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں، سلطانی تو عیاری ہے ہی درویشی بھی کچھ کم نہیں۔‘‘
اور خود جنرل راحیل شریف نے اس سارے عرصے میں نہ کبھی اپنی کسی بات سے نہ کبھی اپنی باڈی لینگویج سے، افق سے کہیں پرے تک بھی، اپنے ناگزیر ہونے کا اشارہ دیا، لیکن ایک اکل کھرے سپاہی ’’GENTLEMAN SOLDIER‘‘ کو ٹی وی اسکرینوں اور پرنٹ میڈیا میں بقول شخصے ’’عقل کل بنے بیٹھے بعض اینکروں‘‘ نے بازار کے چوراہے میں لانے کی کوششیں شروع کر رکھی تھیں حد ہے ڈھٹائی فروشی کی، ملک کے الیکٹرونک اور پرنٹ میں فروکش چند درجن ’’سیاپا فروشوں‘‘ نے پاکستان ہی نہیں افواج پاکستان کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔
اب ہے وفاقی وزیر داخلہ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا واقعہ، اس میں پاکستان کی تاریخی روایات سےہٹ کر کونسا نیا انکشاف ریکارڈ پر لایا جاسکتا ہے۔ سید خورشید شاہ ہی کو لے لیں، انہیں ’’نواز شریف کی آستین میں چھپے سانپوں‘‘ سے بڑی زحمت ہوئی، میاں صاحب سے ہمدردی اور محبت میں ہو سکتا ہے وہ آبدیدہ بھی ہو گئے ہوں مگر ان کے دامن میں تو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے شریک ’’چیئرپرسن آصف علی زرداری کی ’’آستین‘‘ بھی دکھائی دے رہی ہے اس کے حوالے سے شاہ صاحب نے کیا اشارہ کیا تھا؟
عزیز محترم حامد میرؔ نے یہ سوال اٹھایا ہے، شاہ صاحب پہلے اس کا جواب دیں واضح، صاف، دو ٹوک جواب، آصف علی زرداری کی آستین سے انہوں نے کیا برآمد کیا تھا؟ کسی بالاواسطہ یا بالواسطہ ’’فراری ٹیکنک‘‘ کا راستہ نہ نکالیں!
چوہدری نثار علی خاں نے بلاشبہ یہ کہا ’’دو برس میں اپوزیشن لیڈر نے اپنے اہم ترین عہدے کا کس طرح فائدہ اٹھایا اس کی ایک الگ کہانی ہے؟‘‘
’’الگ کہانی‘‘ کے سلسلے میں تو سوال ان سے بھی ہو گا، وہ قومی سطح کی حیثیت میں بیٹھے ہیں، خورشید شاہ صاحب قومی اسمبلی میں قوم کے ٹکٹ پر عوام کے نمائندہ ہیں۔ ووٹ کی بنیاد، طاقت اور اختیار کے بل بوتے پر جو قومی نمائندہ کسی بھی طرح کے کسی ذاتی فوائد سمیٹنے، کوئی اس کو وہ فوائد پہنچانے کا مجاز کیونکر ہو سکتا ہے، چوہدری نثار ہی نہیں ’’ن‘‘ لیگ کی حکومت اور ملک کے چیف ایگزیکٹو وزیراعظم نواز شریف بھی اس کے لئے جوابدہ ہیں۔
خورشید شاہ صاحب نے دو برس میں کسی بھی نوعیت کے مفادات سے اپنی جھولی بھری ہے، وہ کس قانون اور ضابطے کی روشنی میں ان کا حق بنتا تھا اور ’’ن‘‘ لیگ کو کس نے قومی پارلیمنٹ کے کسی عوامی نمائندے کو ایسے مفادات پہنچانے کا حق دیا تھا؟ اگر واقعہ یہی ہے جیسا چوہدری صاحب نے بیان کیا ۔
اِدھر شاہ صاحب کا فرمانا تھا:’’اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب وزیراعظم کی موجودگی میں پارلیمنٹ میں دینا چاہتا ہوں، اگر وزیراعظم نے کوئی رسپانس نہیں دیا تو عدالت سے رجوع کروں گا، میری ذات کو فائدہ پہنچا ہو تو میں سیاست کو خیر باد کہہ دوں گا‘‘، سو فیصد درست بات ہے مگر اس میں سچائی کے ترازو کا صحیح استعمال۔ میاں صاحب کی قومی اسمبلی میں آمد کا انتظار (اغلباً کار بے شغل) کے بجائے شاہ صاحب کے از خود عدالت جانے اور الزام کنندہ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے سے ہے۔ شاہ صاحب کو دعویٰ صرف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں کے خلاف ہی نہیں، لگے ہاتھوں اس میں وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین کو بھی لپیٹ میں لیں، اس لئے کہ رانا صاحب کے مطابق خورشید شاہ عدالت جائیں یا اسمبلی ان کے کردار کی پہلی گواہی میں دوں گا۔
خورشید شاہ نے اپنے بھائی کو پاکستان انجینئرنگ کونسل کا چیئرمین منتخب کرایا، وہ اپنے بھائی کو لے کر میرے دفتر آئے اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے منت سماجت کی۔
ان کے بھائی نے کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کی تاریخ رقم کی۔ خورشید شاہ کے بھائی کے خلاف پبلک اکائونٹس کمیٹی میں ریفرنس بھیجا جا رہا ہے۔ رانا تنویر صاحب کے الزامات تو سرعام کے نظارے میں ڈھل گئے ہیں، شاہ صاحب انہیں تو چوہدری صاحب سے بھی پہلے عدالت کے کٹہرے میں لانے کا بیڑہ اٹھائیں۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے مابین لڑائی کے محاذ پر پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سے لے کر درجہ چہارم تک کی قیادت نے مجموعی طور پر شاہ صاحب کے ساتھ نہایت ہی حوصلہ شکن سلوک روا رکھا، بس پیپلز پارٹی کی ایک ’’بیدار مغز‘‘ شخصیت جناب قمر زمان کائرہ ہی ان کی مدد کے لئے صحیح معنوں میں فوری طور پر لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں اترے اور شاہ صاحب کی حمایت میں ’’نعرہ‘‘ حق بلند کیا۔ انہوں نے اعلان معذرت کرتے ہوئے کہا ’’ہم نے اپنے دور میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے جن لوگوں کو نوازا رانا تنویر وہ بھی بتائیں‘‘ یعنی رانا تنویر الزامات ثابت کر سکیں یا نہ کر سکیں جناب قمر زمان نے ’’نوازنے کا اعتراف‘‘سے اپنے ذاتی مقام، ذاتی اپروچ اور پیپلز پارٹی کے عہد حکومت کے آئینی کلچر کے ’’چہرے‘‘ کا وہ ’’باطن‘‘ بازار کی زینت بنا دیا جو گزشتہ دور حکومت کے متعدد شاہی فقیروں CARPET BEGGERSنے پوری قوم کو دکھانے اور بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہنے دی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو وفاقی وزیر داخلہ اور وفاقی وزیر دفاعی پیداوار کو عدالتی کٹہرے میں لانے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے اندر موجود ’’گینگ آف فور‘‘ کا سراغ بھی لگانا چاہئے، جب ’’سچائی‘‘ کی خاطر میدانِ بلاوآزمائش میں اترنا ہی ہے پھر دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے آستین کے سانپوں کی گردنیں مارنے کا ’’جہاد‘‘ بھی کیوں نہ شروع کر دیں، آپ یقین کریں خورشید شاہ پاکستان کی قومی سیاست میں ایک ’’عظیم نشانی‘‘ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے!!
تازہ ترین