• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیک وقت دو رہائش گاہیں رکھنے کی ری انوسٹی گیشن پر عدالت کا عدم اعتماد

کراچی (اسد ابن حسن) اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج اطہر من اللہ نے ایک رٹ پٹیشن کی دوسری سماعت کے بعد اپنی آرڈر شیٹ میں سرکاری افسر کی دو رہائش گاہوں کا کرایہ وصول کرنے کی ایف آئی اے کی ری انوسٹی گیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی ہے کہ ری انوسٹی گیشن کسی ایسے سینئر افسر سے کروائی جائے جو مدعی سرکاری افسر سے گریڈ میں بڑا ہو اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تحقیقات میں مدعی کو بھی سنا جائے۔ تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے میں تعینات سابق ڈائریکٹر انعام غنی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن نمبر 400/2018 دائر کی جس میں حکومت پاکستان بشمول ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا۔ مذکورہ پٹیشن کی دوسری سماعت گزشتہ ہفتے کو ہوئی۔ پٹیشن میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ان کو بطور ڈائریکٹر تعیناتی کے دوران ان کی سربراہی میں ایک سرکاری افسر مرید رحمون کیخلاف تحقیقات ہوئیں، جن پر الزام تھا کہ اُنہوں نے تین برس میں بیک وقت پاکستان میں اور بیرون ملک تعیناتی کے دوران دو رہائش گاہوں کا کرایہ وصول کیا جوکہ غیر قانونی تھا اور جس سے قومی خزانے کو ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ مذکورہ تحقیقات کے بعد مقدمہ درج ہوا اور ملزم مرید رحمون گرفتار ہوکر جیل بھیج دیا گیا۔ بعد میں جب ملزم ضمانت پر رہا ہوا تو اس نے ڈی جی ایف آئی اے کو مقدمے کی ری انوسٹی گیشن کی درخواست کی اور ایڈیشنل ڈائریکٹر کیپٹن (ر) محمد شعیب کی سربراہی میں ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم عبدالرؤف نے تحقیقات ایک دن میں ہی ختم کردی اور مقدمے کا اندراج غلط قرار دیتے ہوئے مقدمے سے منسلک ایف آئی اے کے افسران بشمول مدعی سابق ڈائریکٹر انعام غنی کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی سفارش کی۔ مقدمے کی پہلی سماعت پر تفتیشی افسر نے یہ حیرت انگیز انکشاف کیا تھا کہ ایف آئی اے کے 15 برس کی نوکری میں یہ اس کی پہلی تفتیش تھی۔ دوسری سماعت پر عدالت میں ایف آئی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم کیپٹن (ر) محمد شعیب نے معزز جج اطہر من اللہ کے روبرو یہ دلائل دیئے کہ ان کی ری انوسٹی گیشن اور اس کو ختم کرنا بالکل درست تھا اور وہ انتہائی قابل افسر ہیں، وہ گولڈ میڈلسٹ ہیں اور ان کو تفتیش کی ٹریننگ امریکی ادارے ایف بی آئی نے دی۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ انتہائی قابل افسران کو تفتیش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ انکے لیول سے مطابقت نہیں رکھتی۔ (یہاں یہ بات اہم ہے کہ محمد شعیب کو اپنی 15 برس کی نوکری میں 4 مرتبہ 13 فروری 2013ء، 5 مئی 2015، 13 دسمبر 2016 اور 19 جون 2017 کو ترقی بورڈ نے ڈیفر کیا۔) معزز جج نے سماعت کے بعد آرڈر شیٹ میں تحریر کیا کہ کیپٹن (ر) محمد شعیب ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے عدالت میں حاضر ہوئے اور بیان دیا کہ ری انوسٹی گیشن قانون کے مطابق کی گئی مگر اُنہوں نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ اس ری انوسٹی گیشن جس کو وہ سپروائز کررہے تھے، اس کے تفتیشی افسر ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالرؤف تھے اور یہ کہ یہ اس کی 15 برس میں پہلی تفتیش تھی۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے بتایا کہ دو رہائش گاہیں رکھنے کے حوالے سے وزارت خزانہ سے (تحریری نہیں) ٹیلیفون رابطہ کیا تاکہ آیا سرکاری افسر بیک وقت دو رہائش ایک پاکستان میں اور دوسری بیرون ملک رکھ سکتا ہے۔ مگر یہ اہم نکتہ تفتیش کے ریکارڈ میں موجود نہیں جبکہ مدعی کا یہ بھی شکوہ تھا کہ اس کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ اس مذکورہ کیس کے حوالے سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اسٹیٹ آفیسر محمد اشرف نے سیکشن آفیسر وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورسک کو 17 جون 2017ء کو مراسلہ نمبر No.1, ST.43,F-7/1-EIV/E.O تحریر کیا جس میں تحریر کیا گیا کہ محمد مرید رحمون، اسلام آباد میں سرکاری رہائش گاہ رکھتے ہوئے کسی صورت دوسری رہائش گاہ لینے کا مجاز نہیں تھا۔ مگر اس نے اپنی امریکا پوسٹنگ پر یہ غیر قانونی سہولت حاصل کی جس پر آڈٹ نے بھی اعتراضات اُٹھائے اور جب اسلام آباد میں الاٹ شدہ سرکاری رہائش گاہ کا دورہ کیا گیا تو بنگلے پر مرید رحمون کے ملازم رہائش پذیر تھے اور وہاں مرید کا کوئی فیملی ممبر نہیں رہ رہا تھا۔ مزید برآں مرید رحمون کے خلاف اسلام آباد کے سول جج ثاقب جواد نے بھی فیصلہ دیا۔ اس تناظر میں یہ درست ہوگا کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ہدایت دی جائے کہ ری انوسٹی گیشن دوبارہ کسی ایسے سینئر اور قابل افسر سے کروائی جائے جو مدعی انعام غنی سے پوسٹ میں اعلیٰ ہو اور اُمید ہے کہ مدعی کو بھی تفتیش میں شامل کیا جائے۔ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ تین ہفتوں میں رپورٹ اس عدالت میں جمع کروائینگے۔ فیصلے میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ ٹرائل کورٹ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی رپورٹ آنے کے بعد مزید کارروائی شروع کرے۔ مدعی کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پٹیشن کا فیصلہ جلد کیا جائے کیونکہ اس وجہ سے مدعی انعام غنی کی ترقی رکی ہوئی ہے اور اب ترقی کے حوالیس ے بورڈ میٹنگ پیر 19 مارچ کو ہوگی۔ جس پر عدالت نے کلیئر کیا کہ ری انوسٹی گیشن میں جو تفتیشی افسر نے ایف آئی اے کے ملازمین بشمول انعام غنی کیخلاف کارروائی کی سفارش کی تھی اس کو معطل کیا جاچکا ہے اور اسکے اگلے گریڈ میں ترقی پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ اس حوالے سے سابق ڈائریکٹر انعام غنی نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ اُنہوں نے پیر کو بورڈ کے سامنے محترم جج اطہر من اللہ کی آرڈر شیٹ بھیجی تھی مگر بورڈ نے اسے قابل قبول تصور نہیں کیا اور ان کو اگلے گریڈ میں ترقی کا فیصلہ ایک بار پھر مؤخر کردیا گیا۔ اسی طرح عدالت میں اسلام آباد میں واقع کانسٹی ٹیوشن ایونیو ون (Conlstitution Avenue One) کی ری انوسٹی گیشن ختم ہونے کا ذکر ہوا۔ اس ری انوسٹی گیشن کے حوالیس ے محمد شعیب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہ ری انوسٹی گیشن مقدمہ نمبر 10/17 اسلام اآاد کے سلسلے میں ہوئی۔ تفصیلات کے مطابق قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر کارپوریٹ کرائم سرکل لاہور کو ایک قیمتی قطعہ اراضی، غیر قانونی طور پر الاٹ کرنے کے حوالے سے تحقیقات کا خصوصی ٹاسک دیا گیا اور مکمل تفتیش کے بعد اسی سرکل کے انسپکٹر نیرالحسن نے مورخہ 2 مئی 2017 کو مقدمہ نمبر 10/2017 درج کیا۔ مقدمے کا عبوری چالان 9 نومبر 2017 کو عدالت میں جمع کروایا گیا جس میں شواہد کی موجودگی میں حبیب الرحمن جیلانی، کامران لاشاری، کامران علی قریشی، اسد منیر، شوکت علی، رائے محمد نواز کھرل، عبدالحفیظ شیخ اور فاروق احمد شیخ کو ملزمان نامزد کیا گیا۔ مذکورہ مقدمے کی ری ٹرائل کی درخواست ایف آئی اے کو کی گئی جسکے بعد 20 فروری 2018ء کو ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو ایک مراسلہ بھجوایا جس میں تحریر کیا گیا کہ ایک غیر جانب دارانہ انکوائری محکمے کے افسر کیپٹن (ر) محمد شعیب نے کی اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ تحقیقاتی ٹیم (مقدمہ نمبر 10/2017) فراڈ، اختیارات سے تجاوز اور اتھارٹی کا بے جا استعمال، جعلسازی اور مجرمانہ غفلت اور دھوکہ دہی کے الزامات ثابت کرنے میں مخلص نہیں تھی اور ملزمان سابق چیئرمین سی ڈی اے کامران لاشاری، کامران قریشی، سابق ممبر فنانس سی ڈی اے، سابق ڈائریکٹر اسٹیٹ سی ڈی اے اور عبدالحفیظ شیخ کے خلاف ناکافی ثبوت پر کارروائی ختم کردی گئی۔
تازہ ترین