• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

جنوبی پنجاب: بلاول کی کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی متحرک نہیں ہوسکی

جنوبی پنجاب: بلاول کی کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی متحرک نہیں ہوسکی

ملتان میں عمران خان کے ایک روزہ طوفانی دورہ نے سیاسی سطح پر ایک ہلچل تو مچا دی مگر کیا ممبر سازی کے اس عمل سے تحریک انصاف کو عملاً کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں؟ کیونکہ اس مہم کے دوران بھی یہ بات واضح طور پر دیکھنے میں آئی کہ پارٹی کے اندر موجود وہ دھڑے بندی ختم نہیں ہوسکی جس نے لودھراں کے ضمنی الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کو نقصان پہنچایا اور جو اب بھی آنے والے دنوں میں پارٹی کیلئے مشکلات پیدا کرسکتی ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کی قیادت نے ممبر سازی کے جس فارمولے کا اعلان کیا ہے۔ 

اس کی وجہ سے جہاں پارٹی میں ٹکٹوں کے دعوے داروں کی چھانٹی ہوسکے گی وہیں ممبر سازی کے عمل سے پارٹی گراس روٹ لیول پر مضبوط اورمستحکم ووٹ بینک پیدا کرنے میں کامیاب رہے گی۔ ایک دن میں 28 ممبر سازی کیمپوں کا دورہ کرکے عمران خان نے اگرچہ پورے ملتان کو ایک بار سیاسی طور پر متحرک کرکے رکھ دیا ہے لیکن آنے والے دنوں میں پارٹی اپنا یہ ٹیمپو کیسے برقرار رکھتی ہے؟ اصل اہمیت اس بارے کی ہے۔ 

آج بھی ملتان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار بننے کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور ان میں اس قدر اس حوالے سے خودغرضانہ تڑپ ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر شاید دوسرے امیدوار کی حمایت تک نہ کریں بلکہ الٹا مخالفت پر اتر آئیں۔ 

عمران خان کے لئے سب سے بڑا ٹاسک یہی کہ وہ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کو ایک منظم جماعت کے طور پر میدان میں لائیں۔ عمران خان کی اس مہم کے دوران جہانگیر ترین کہیں نظر نہیں آئے۔ کہا یہ جاتا ہے، وہ ناسازی طبع کے باعث اس ممبر سازی مہم میں شامل نہیں ہوئے ۔

مشکلات کا شکار تو پیپلزپارٹی بھی ہے۔ باوجود تمام تر کوششوں کے پیپلزپارٹی کوئی ایسا رنگ جمانے میں کامیاب نہیں ہو پارہی جو موجودہ صورتحال میں یہ احساس دلا سکے کہ اس کے تن مردہ میں جان پڑ رہی ہے۔ ملتان میں بدقسمتی سے گیلانی خاندان نے کسی اور کو اٹھنے نہیں دیا ، نہ ہی کوئی ایسی مضبوط قیادت پیدا کی ہے جو پارٹی کے لئے ایک مضبوط عوامی رابطہ مہم کی بنیاد بن سکے۔ 

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ابھی تک گیلانی خاندان خود کو وزارت عظمیٰ کے خمار سے باہر نہیں نکال سکا حالانکہ اسے چھ سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے کارکنوں کا اپنی قیادت سے رابطہ بہت کمزور ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹے ابھی تک عوامی سیاست کا چلنا نہیں سیکھ سکے۔ وہ کسی اور کو نہیں دیکھنا چاہتے تو کم از کم مخدوم شاہ محمود قریشی کی سیاست پر ہی ایک نظر ڈال لیں۔ 

وہ گزشتہ سات ماہ سے ملتان میں عوامی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ لوگوں کی خوشی ، غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ موٹر سائیکل پر ایسی گلیوں میں بھی پہنچ جاتے ہیں جہاں گاڑی نہیں پہنچ سکتی۔ وہ دو درگاہوں کے سجادہ نشین ہونے کے باوجود عوام کی قربت کیلئے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں مگر پیپلزپارٹی کا کوئی ایسا رہنما نہیں جو عوام کے اس قدر قریب ہو۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے آصف علی زرداری نے ملتان گیلانی خاندان کو سونپ دیا ہے۔ پارٹی قیادت کا جتنا بڑا خلا مقامی سطح پر پیپلزپارٹی میں نظر آتا ہے اتنا مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف میں موجود نہیں ہے۔ 

ایسے حالات میں، جب پیپلزپارٹی کے ٹکٹ لینے کو بھی امیدوار دستیاب نہیں ہیں۔ یوسف رضا گیلانی شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اور ان کے تینوں بیٹے چار نشستوں پر انتخاب لڑ کر پیپلزپارٹی کو کامیابی دلائیں گے۔ یہ ایک ایسی سوچ ہے جو پیپلزپارٹی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک طرف آصف علی زرداری مولانا حامد سعید کاظمی کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ انہیں رہائی پر مبارکباد دینے کیلئے ملتان آتے ہیں اور گزشتہ ہفتہ وہ ان کے بیٹے کی شادی میں شرکت کیلئے بھی ملتان پہنچے مگر انہیں ملتان کی سیاست میں کوئی بڑا کردار دینے کو تیار نہیں ہیں اور یہ سب کچھ انہوں نے یوسف رضا گیلانی پر چھوڑ رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی آنے والے انتخابات کیلئے کس جادو کی چھڑی کا انتظار کر رہی ہے۔ اس کے بارے میں تو کسی کو معلوم نہیں لیکن کارکن یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ جس طرح سینٹ کے انتخابات میں آصف علی زرداری نے ’’معجزہ‘‘ دکھایا ہے۔ اس طرح عام انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی معجزاتی طور پر بڑی کامیابی لے کر ابھرے گی۔ 

بادی النظر میں تو یہ صرف دیوانے کا خواب لگتا ہے کیونکہ عوام کا یہ ذہن بن چکا ہے کہ آنے والے 2018ء کے انتخابات میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں ہونا ہے۔ پیپلزپارٹی کو تو وہ مائنس کرچکے ہیں۔ سینٹ کے انتخابات اور عام انتخابات میں زمین آسمان کا فرق ہے جو کھیل سینٹ انتخابات میں کھیلا گیا۔ وہ عام انتخابات میں نہیں کھیلا جاسکتا کیونکہ ان میں براہ راست عوام شامل ہوتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اگر کوئی بڑا معجزہ دکھانے میں کامیاب رہی تو بھی وہ اتنی نشستیں نہیں لے پائے گی کہ اگلی حکومت سازی میں اس کا کوئی بڑا کردار ہو۔ 

جنوبی پنجاب کی حد تک پیپلزپارٹی فی الوقت کوئی بڑی پیش رفت نہیں کرسکی۔ بلاول بھٹو کا ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ بھی ابھی تک نہیں چلا۔ دوسری طرف تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن مسلسل جنوبی پنجاب پر توجہ دیئے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف نے ڈیرہ غازی خان میں ایک بڑا جلسہ کرکے اور وہاں میگا پراجیکٹس کا اعلان کرکے اپنے عزائم کو ظاہر کردیا ہے۔ وہ لغاری خاندان جو ایک زمانے میں شریف برادران کا بہت بڑا ناقد رہا ہے اور سردار فاروق لغاری ملت پارٹی کے پلیٹ فارم سے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کے الزامات کی ایک بڑی مہم چلا چکے ہیں۔ 

آج لغاری خاندان مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے اور آئندہ انتخابات میں لغاری گروپ یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کی اکثر نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔ سو دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی حد تک کافی سرگرمی نظر آتی ہے لیکن تیسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی اس حوالے سے کہیں نظر نہیں آ رہی۔

تازہ ترین
تازہ ترین