• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا …راجہ اکبردادخان
ریاست پاکستان کی برطانیہ میں کشمیر پر سفارت کاری اور ایک مضبوط پاکستانی لابی تیار کرنے کیلئے پچھلے پچاس برسوں کی ہماری کوششیں زیادہ حوصلہ افزا تصویر پیش نہیں کرتیں۔ اس عرصہ میں برطانیہ میں پاکستانی/ کشمیری کمیونٹی کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا اور آج یہ تعداد تقریباً 12لاکھ کے قریب تسلیم کی جاتی ہے۔ اگلے مہینے دولت مشترکہ ممالک کے وزرائے اعظم کی کانفرنس لندن میں منعقد ہو رہی ہے، حسب روایت ہمارے وزیراعظم بھی اس میں شرکت کریں گے۔ کشمیر پر برطانوی موقف کہ یہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک دوطرفہ معاملہ ہے، جسے باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے اور برطانیہ دونوں ممالک کو ایسے مذاکرات کیلئے آمادہ کرنے کی کوششیں کرتا رہے گا۔ ہماری حکومتی سفارتکاری اور برطانوی لابنگ پر بیانیہ تبدیل نہیں کرا سکی ہیں بلکہ آج پاکستان کیلئے اس ایشو کو اہم پلیٹ فارم پر نمائندہ رکھنا ازخود ایک چیلنج بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے اہم امور پر کوئی متفقہ بیانیہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہر حکومت کی کوئی بھی اپروچ مختصر مدت کیلئے ہی چلی اور ہر نئی حکومت آنے پر نئے بیانیے سامنے آئے۔ حق خودارادیت، وزارتی سطح پر ہونے والے کئی مذاکراتی ادوار، مقبوضہ ریاست کے اندر مزاحمتی گروپس کی پشت پناہی اور اس طرح کے دیگر متعدد آپشنز کے درمیان اقوام متحدہ کی بنیادی قراردادیں اپنا مقام کھو بیٹھیں۔ ہمارے بلدتے موقف نہ تو پاکستانی قوم کو درست رہنمائی فراہم کرسکے اور نہ ہی ہمارے بیرون ملک ریاستی اور غیر ریاستی ادارے یکسوئی سے کسی ایک سمت میں اپنے کام جاری رکھ سکے۔ ان حوالوں سے قومی بیانیے ترتیب دینا کس کی ذمہ داری تھی اور ایسا نہ ہو پانا اگر ریاستی ناکامی نہیں تو علم نہیں اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت کے درمیان اہم ریاستی معاملات چلانے کے حوالے سے اختیارات کی تقسیم ایک دیرینہ مسئلہ ہے بالخصوص خارجہ پالیسی اور قومی مفاد کے زمرے میں آنے والے معاملات پر ریاست کے ان دو اہم اداروں کے درمیان یکجہتی نہیں ابھر سکی ہے۔ کوئی بھی پارلیمنٹ حالات، خارجہ امور دیگر قومی اور مثلاً اچھی اور شفاف طرز جمہوریت رائج کرنا، قومی خزانہ کی منصفانہ تقسیم، ملک کے اندر آئین اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے معاملات پر کوئی قابل عمل انٹرا پارٹی گفتگو کا ماحول نہیں بنا سکی ہے مجھے اس پراسس کی نزاکتوں اور مشکلات کا مکمل احساس ہے مگر حکومتوں نے اگر ان اہم مگر مشکل معاملات سے نمٹنے کے لئے اقدامات نہیں کرنے تو پھر یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ماتحت ادارہ ہے، اگرچہ پاکستان کے ریاستی نظام اور قومی ذہنی سوچ میں اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح رچی بسی ہے۔ ایسا ہو بھی کیوں نہ؟ جہاں سویلین حکومتیں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتیں اور معاملات عوامی فلاح و بہبود کے ہوں تو یہ ادارہ بلانے پہ یا بن بلائے معاملات اہل انداز میں نمٹانے آ پہنچتا ہے۔ معاملہ پولیس گردی کا ہو، معاملہ محکموں سے انصاف نہ ملتا دکھائی دینے کا ہو، معاملات سیلابوں سے نمٹنے کے ہوں، ہر آواز آرمی چیف سے مدد کی درخواست کرتی ملتی ہے۔ ایسی عوامی سوچوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو اعلیٰ ترین سطح پر بٹھا دیا ہے لہٰذا ملک کی سیاسی قیادت کو اپنی گیم اوپر اٹھانی ہوگی اور خوف کے خول سے باہر آکر اقتدار اور پالیسیوں پر کنٹرول کے معاملات کو طویل مدتی بنیادوں پر طے کرنا ہوگا۔ ایسا ہو جانے پر مرکزی ڈلیوری پوائنٹس سامنے آجائیں گے اور ابہام اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے خاتمے سے واضح پالیسیاں سامنے آنی شروع ہوجائیں گی۔ کچھ عرصہ سے ان دو حوالوں سے برطانوی رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لئے کونسلر کنونشنز کا اہتمام بھی ہو رہا ہے اور ممبران پارلیمنٹ سے بھی رابطے کئے جا رہے ہیں۔ دونوں اچھی کوششیں ہیں تاہم ماضی میں ایسی کوششیں مضبوط بنیادیں نہیں تیار کرسکی ہیں۔ برطانوی سیاسی جماعتوں کی ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ روابط کی بھی ایک طویل داستان ہے۔ کشمیری تاریخ کے اہم ایام پر جماعتوں کے اپنے اجتماع اپنی جگہ مگر ان تمام کوششوں کو تاحال کسی تحریری شکل میں مرکزیت نہیں دی جا سکی۔ دوسری صبح تک اس میٹریل کا بڑا حصہ ہماری یادداشتوں سے گم ہوجاتا ہے۔ ایسی کوششوں سے ابھرنے والی سفارشات سے پالیسیاں بنانے اور ایسے Contact bankکے بن جانے سے ہی مستقبل میں بہتر کام کیلئے ماحول تیار ہو سکیں گے لہٰذا فوکل پوائنٹ بننے ضروری ہیں۔ فوکل ڈلیوری پوائنٹس کی نوعیت ایک غور طلب معاملہ ہے۔ ہمارے اس تحریکی اور پاکستان دوست ذہنی سرمایہ کو محفوظ بنانا اہم ہے۔ میری رائے میں یہ اہم قومی ذمہ داری اگر ہائی کمیشن قبول کرلے یا قومی سطح کی کوئی نمائندہ تنظیم، تبھی کہیں ڈلیوری پوائنٹ سے مربوط پیغام آگے پہنچائے جا سکیں گے۔ قومی ایشوز پر وسائل کا استعمال حکمرانی کا حصہ ہے مگر میں نے جب بھی ایسے ایشوز پر اپنے خیالات کو زیربحث لایا ہے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے کہ تمام تجاویز قابل عمل ہوں اور مالی اعتبار سے بھی پوری کی جا سکتی ہوں۔ اس حقیقت سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ گھٹن اور مایوسیوں کا موجودہ ماحول قومی جذبہ زیست کے لئے بھی نقصان دہ ہے اور قومی مورال کے لئے بھی۔ قومی قوت برداشت کے لئے مزید زخم سہنے اب مشکل ہوچکا ہے۔ بالکل ایسے ہی حالات میں متاثرہ عوام کے جذبات کیا رخ استعمال کر سکتے ہیں؟ حتمی رائے دینا مشکل ہے۔ مگر اتنا یقینی ہے کہ ایسے ’’سٹیٹس کو‘‘ دنیا کے کئی حصوں میں ٹوٹتے دیکھے جا چکے ہیں۔ 1965کی جنگ نے بڑی حد تک اٹوٹ انگ بیانیہ کو چیلنج کیا۔ 1971کی جنگ میں نہ تو ساتواں امریکی بحری بیڑہ متحدہ پاکستان بچانے کیلئے آیا اور نہ ہی کسی کو یہ توقع کرنی چاہئے کہ چین کسی طرح پاکستان کو کشمیر لے کر دے گا۔ حقیقی جنگ مقبوضہ کشمیر کے کشمیری ہی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس تحریک میں بھی اتار چڑھاؤ آتے رہیں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان سفارتی محاذ پر اپنی کوششوں میں تیزی لائے۔ پاکستان کا ایک فریق کی حیثیت سے نہایت دفاعی پوزیشن پر چلے جانا مایوس کن ہے۔ وجوہات جو بھی ہیں، حکومت قوم کو اس اہم ترین مسئلہ پر رہنمائی فراہم نہیں کررہی یہ رہنمائی غیر روایتی سفارت کاری کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے۔ آؤٹ آف باکس متوقع حل بھی دیکھے جانے چاہئیں۔ کچھ ہمدرد دوستوں کو درمیان میں لاکر برف پگھلنے کے اہتمام بھی کئے جا سکتے ہیں ہم ایک Talentedقوم ہیں، کشمیر اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں جموں کا ٹوٹنا، بھارت کے مفاد میں بھی ہے مگر اس سے کہیں زیادہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب تمام ڈلیوری پوائنٹس کام کررہے ہوں گے۔
تازہ ترین