• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:جلال چوہدری…ایڈنبرا
آج ہم ماشاء اللہ یوم پاکستان منا رہے ہیں اور آج تک ہمارا وطن قائم اور دائم ہے، ورنہ دشمنوں کے منہ میں خاک، ان کی پیشگوئیوں کے مطابق تو اب تک پاکستان کو ختم ہوجانا چاہئے تھا۔ ویسے تو ہم نے بھی اپنے کردار اور افعال سے کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ اپنے ملک کو خود ہی ختم کردیں۔ یہ تو اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ہماری تمام تر لغزشوں اور کوتاہیوں کے باوجود یہ ابھی تک قائم ہے، جیسے کہتے کہ جو شے بغیر جدوجہد کے مل جائے اس کی قدروقیمت نہیں ہوتی، نئی پود جب پیدا ہوئی تو یہ ملک ایک آزاد ملک تھا اور جن لوگوں نے اس کی آزادی کے لئے جدوجہد کی اور قربانیاں دی تھیں وہ ایک ایک کرکے قبروں میں چلے گئے اور باقی جو اکا دکا موجود ہیں ان کی کوئی سنتا نہیں اور اگر کچھ لوگوں نے جدوجہد اور قربانیوں کے واقعات کو کتابوں کے ذریعے محفوظ کیا ہے تو ان کتابوں کو پڑھنے کیلئے نئی نسل کے پاس وقت نہیں ،اب تو الیکٹرونک اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے خصوصاً یہ آئی فونوں کی یلغار نے کتابوں کے مطالعہ کو بالکل ہی ختم کردیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی وطن سے متعلق آزادی کا کوئی دن آتا ہے میرے لئے ایک خوشی اور غم کے امتزاج کا سا سماں پیدا ہوجاتا ہے۔ خوشی اس لئے کہ ایک دن کے لئے ہی سہی قوم کو وطن سے متعلق کچھ تو سوچنے کا موقع ملا۔ دکھ اس بات کا کہ چند ایک لوگوں کے علاوہ اکثر آبادی کے لئے یہ یوم آزادی صرف اچھل کود اور دھوم دھڑکا ہی ہے۔ ہندوستانی فلمیں ہمارے سینمائوں میں ریلیز کی جاتی ہیں، بڑے بڑے اشتہار شائع کئے جاتے ہیں، یوم آزادی کی خوشی میں فلاں فلاں فلم کا اجرا ہوگا اور اس اچھل کود میں جوش پیدا کرنے کیلئے ہندوستان کی فلموں کے گانوں سے جسموں کو تھرکایا جاتا ہے، نہ کوئی روکنے والا ہے اور نہ ہی سمجھانے والا، جن کی ذمہ داری سمجھانے کی ہے وہ خود اس میں شامل ہیں وہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں جاکر بیانات دیتے ہیں کہ پاکستان کا بننا اس صدی کی سب سے بڑی غلطی تھی اور کچھ اپنی تقاریر میں کہتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان ایک ہی ہیں، یہ تو بس ایک لکیر کھینچ دی گئی ہے وگر نہ ہم سب ایک ہیں ہمارا رہن سہن ایک ہے، معاشرہ ایک ہے، خوراک ایک ہے، آلو گوشت ہم بھی کھاتے ہیں اور لکیر کے دوسری طرف بسنے والے بھی آلو گوشت کھاتے ہیں، پھر ہم اور ان میں کیا فرق ہے مگر اپنے عوام کو یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ بے شک ہم اور وہ گوشت ضرور کھاتے ہیں مگر پھر بھی ان میں اور ہم میں فرق ہے، ہم گائے کا گوشت کھاتے ہیں جو ان کی ماں ہے اور وہ سور کا گوشت کھاتے ہیں اور کچھ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہم نے ہندوستان کو چھوڑ کر پاکستان آکر غلطی کی اور ہندوستان کی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ حملہ کرکے پاکستان کو فتح کرکے پورے کے پورے علاقہ کو ہندوستان بنالو اور اس طرح اکھنڈ بھارت کے خواب کی تعبیر کی تکمیل کرلی۔ یہ ہیں وہ بیانات جو ہمارے لیڈروں کے ہیں اور یہ سب ریکارڈ پر موجود ہیں وگر نہ جن لیڈروں نے اس کیلئے قربانیاں دی تھیں ان میں سے ایک محترمہ خلیق الزماں تو یہاں تک برداشت نہیں کرتی تھیں کہ ہماری نئی نسل ریڈیو کے ذریعے بھی ہندوستانی فلموں کے گانے سنیں ان کے زمانے میں ٹرانسسٹر ریڈیو نئے نئے مارکیٹ میں آئے تھے۔ بیلٹ کے ذریعے گلے میں لٹکا کر گانے سننے کا فیشن تھا۔ بیگم صاحبہ کا بیان جو اخبارمیں چھپا، مجھے آج بھی یاد ہے انہوں نے فریا کہ جب میں پاکستانی نوجوانوں کو لٹکائے ٹرانسسٹروں سے ہندوستانی گانے سنتے دیکھتی ہوں، مارے غصہ کے میرا جسم کانپنے لگتا ہے جی چاہتا ہے کہ کوئی ان کے ہنٹر برسائے اور ان کو ان مظالم کی یاد دہانی کرائے جو ہندوئوں نے آزادی کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ کئے تھے وہ دن اور آج کا دن، ملاحظہ کریں کیا کچھ بدل چکا ہے ایام آزادی منانے کا مقصد دھوم دھڑکا ہی نہیں گو یہ بھی ہونا چاہئےمگر ایک دائرے کے اندر، مگر اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس دن ہم اپنے آپ کا جائزہ لیں کہ پچھلے سال کے مقابلہ میں ہم نے کیا ترقی کی اور کون کون سی غلطیاں کیں اور ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر آئندہ کیلئےایک لائحہ عمل اختیار کریں اور جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان بناکر غلطی کی اور ہم اور ہندوستان کے لوگ ایک ہیں، کاش وہ عام آدمی کی طرح ہندوستان میں عام مسلمان کی زندگی کا مشاہدہ کریں پتہ چل جائے گا کہ کیا واقعی ایسا ہے، کیا واقعی ہندوئوں کا اور ہمارا کلچر، تہذیب، تمدن سب ایک ہے میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں میں سے ایک ہوں ہمارا پرانا گھر ہندوستان میں ہے جس میں ہمارےچچا زاد بھائی رہتے ہیں، میں اکثر ہندوستان آتا جاتا رہتا ہوں، پورے ہندوستان میں گھومتا ہوں مسلمانوں کی کسمپرسی کو دیکھ کر جو میرے من میں گزرتی ہے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ ہندوستان کے حالیہ سروے کے مطابق ہندوستان میں مسلمان 17فیصد ہیں مگر مسلمان 25فیصد پر اصرار کرتے ہیں، گورنمنٹ کی ملازمتوں میں ایک یا دو فیصد ہوں گے۔ صرف جنوبی ہندوستان میں دو صوبے ہیں جنہوں نے تین فیصد کا کوٹہ مختص کیا ہے وگر نہ مسلمانوں کے لئے کوئی کوٹہ نہیں ہے حالانکہ ہندوستان کی دوسری اقلیتوں جن میں دلت، شودر، چمار،ان کیلئے ہر محکمہ اور ہر شعبہ میں کوٹہ ہے مسلمانوں کیلئے لے دے کر ریلوے سٹیشنوں پر بوجھ اٹھانے کیلئے قلی یا سائیکل رکشہ ہے اور سائیکل رکشہ والوں کی اس قدر بھرمار ہے کہ اسٹیشن سے اترتے ہی دس بیس رکشہ والے گھیر لیتے ہیں منتیں، سماجتیں کرتے ہیں قسمیں کھاتے ہیں کہ صبح سے کوئی کمائی نہیں ہوئی۔ ویسے بھی راستے میں چلتے ہوئے جس شخص کا لباس میلا، پچکے ہوئے گال، سوکھی سوکھی پنڈلیاں، دھان پان سا جسم، چہرے سے بیماری کی علامات، پریشان بال، بے یارومددگار شخص کی سی کیفیت دیکھیں بس سمجھ لیجئے یہ مسلمان ہے۔ اس بار میرا کلکتہ جانا ہوا وہاں پر تو اور بھی برا حال، ہم لوگ برما سے نکالے ہوئے روہنگیا کے مسلمانوں کو ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں وہاں کلکتہ میں تو ہر گلی میں مسلمانوں کی یہ ہی حالت ہے،میں سوچنے لگا کہ کاش وہ لوگ جو پاکستان کے بن جانے کو اس صدی کی سب سے بڑی غلطی گردانتے ہیں اور جو کہتے ہیں کہ ہم سب ایک ہیں پاکستان کو ختم کرکے ایک ہی بننے کے اعلانات کررہے ہیں کاش ایک بار صرف ایک بار عام مسلمان کا بھیس دھار کر عام مسلمانوں کی ہندوستان میں حالت زار کا مشاہدہ کرلیں تو ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔
تازہ ترین