• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دریازمین کی حسن و رعنائی،آبی حیات کا مسکن،سرسبز لہلہاتے کھیتوں کا سرچشمہ اور شہری زندگی کی انمول تفریح گاہ ہوتے ہیں۔سرزمین پنجاب کو قدرت نے پانچ دریائوں سے نوازا ہے۔پاکستان آبی وسائل کی تحقیقاتی کونسل (پی سی آر ڈبلیو آر)کی جانب سے دریائے ستلج اور راوی کی گزشتہ ایک سال سے ماہانہ واٹر کوالٹی مانیٹرنگ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان دونوں دریائوں میں جہاں پانی کی سطح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے وہاں ان میں لاہور،چیچہ وطنی،بہاولپور،قصور اور فیصل آباد کے شہروں کا فضلہ بھی سیوریج کی شکل میں آمیزش کا باعث بن رہا ہے جس سے نہ صرف آبی حیات کا زندہ رہنا ناممکن ہو چکا ہے بلکہ گندہ پانی شامل ہونے سے زیرزمین پانی کا معیار بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے جو حکومت کے متعلقہ اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ دریائے راوی جو لاہور کی پہچان اور شہریوں کی جان سمجھا جاتا تھا کسی وقت سیر وتفریح کا سب سے بڑا مرکز ہوا کرتاتھا۔یہ دریا اس لحاظ سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مغلوں نے اس کے کنارے شاہدرہ کے مقام پر خوبصورت بارہ دریاں بھی تعمیر کرائی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھی 70اور 80کی دہائیوں تک شہری سیروتفریح کے لئے دریا کا رخ کیا کرتے تھے۔کشتی رانی کے مقابلے ہوا کرتے تھے آج اول تو بھارت ہی نے اس میں اس قدر پانی نہیں آنے دیا کہ یہ رواں دواں رہے دوسرے یہ دریا بھارت کے بھی کئی شہروں سے آلودگی اپنے ساتھ لاتا ہے رہی سہی کسر سرحدی علاقے سے لیکر تا حد نظر بھینسوں کی آماجگاہ بن جانے اور اپنے شہری علاقوں سے پوری ہو جاتی ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں نہ صرف بھارتی حکام سے گفت وشنید کرنی چاہئے بلکہ اپنے شہروں کا فضلہ بھی ان دریائوں میں ڈالنے کی بجائے اس کا متبادل بندوبست کیا جانا چاہئے ۔فزیکل پلاننگ کے اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر اس کا حل تلاش کرنا چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین