• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ایک راہ گم کردہ اینکر کے پروگرام پر سپریم کورٹ نے تین ماہ کی پابندی لگادی ہے۔ سارا مقدمہ ابھی نمٹا نہیں ہے۔ توہینِ عدالت کا الزام بھی ہے اور غلط اور جھوٹی خبر نشر کرکے سنسنی پھیلانے اور قوم کو ایک ہیجان میںمبتلا کرنے کا بھی۔ درا صل یہ ابتدا ہونی چاہئے معاملات کوصحیح سمت میں لے جانے کی۔ اِن کے اور اُن دوسرے اینکرز کے معاملات کا بھی جائزہ لیا جائے جو ہرپابندی اور ضابطہ سے آزاد نظر آتے ہیں۔ اِن کا مقدمہ تو اب اعلیٰ عدالت کے سامنے ہے وہ یہ بھی دیکھے کہ ذرائع ابلاغ کے اس شعبہ کو کس طرح اصول اور ضوابط کا پابند کیا جا سکتا ہے؟ اتنے اہم کام کس طرح اور کن لوگوں کے سپرد کئے جائیں؟
فی الحال جن صاحب کا معاملہ زیرِبحث ہے ان جیسے ناتراشیدہ ، غیر تربیت یافتہ کچھ اور بھی ہیں۔ ان گھس بیٹھیوں کی وجہ سے میڈیا عوام میںاپنا اعتماد کھورہا ہے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ان کا کام صرف سنسنی پھیلاناہوتا ہے، جھوٹ سچ جو جی چاہے، جو جی میں آئے، نشر کردینا ہی ان کا طریقہ ہے۔ ان کے پروگرام دیکھیں، اوٹ پٹانگ ہانکتے نظر آئیں گے۔ ان کی دی ہوئی اطلاع یا پھیلائی ہوئی خبر غلط ثابت ہوجائے توکبھی شرم یا معذرت کی توفیق انہیں نہیں ہوتی۔ غالباً انہوں نے سیکھی ہی صرف ڈھٹائی ہے۔ اس کا مظاہرہ یہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، کس طرح الزام لگا رہے تھے زینب کے قاتل پر، پھانسی کا مطالبہ تھا اگر غلط ثابت ہوجائے۔ اعلیٰ عدالت میں پیشی کے بعد بھی گردن کے سریے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ان کی تو بنیاد ہی ٹیڑھی تھی۔ جھوٹ اور دروغ گوئی ان کی کامیابی کی سیڑھی تھی، اس پر چڑھتے چڑھتے وہ یہاں تک پہنچ گئے کہ کسی کی پگڑی اچھالنا، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ان کا عزیز ترین مشغلہ ٹھہرا، اسی میں انہوں نے شہرت کما ئی۔ ان کی ابتدا بھی ایک غیر حقیقی بات سے ہوئی۔ قیامت ان کے مطابق بس آیا ہی چاہتی تھی۔ بات کواس ڈھنگ سے پیش کیا جیسے چاکیواڑہ کے مجمع باز سلیمانی انگوٹھی بیچتے تھے یا جنوں کے بادشاہ کے دربار کی معصوم لوگوں کو سیر کراتے تھے۔ ہجوم جمع ہوجاتا، قصے کہانیاں سنتا ۔یہ مجمع باز کی طرح مقبول ہوتے گئے۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے غلط سلط معلومات سرقہ کیں اور اپنے انداز میں پیش کردیں۔ مجمع باز جس طرح کہانی سناتاہے اس میں ایک غیر حقیقی لذت ہوتی ہے، لوگ مزے لیتے ہیں مگر کہانی اکثر آدھی ہی رہ جاتی ہے۔ انہوں نے کہانی میں مسالا بہت ڈالا، دروغ گوئی کی انتہا کی، اعتماد بلا کا تھا، اس کا بھی خوب استعمال ہوا۔ میڈیا ابھی نیا نیا تھا،مجمع بازی کا فن انہوں نے ٹی وی پرخوب آزمایا، کامیاب رہے۔ اپنی دیگر مصاحبانہ صلاحیت کے ساتھ صاحبان اقتدار کے قریب پہنچے۔ زرداری دبئی سے لاہور آرہے تھے تو ان کے ساتھ صحافیوں کو سفر کرنے کی دعوت دینے والے یہ تھے۔ بعد میں ا سی خدمت کے صلہ میں سرکاری ٹی وی کے سربراہ بنے۔ غرور اور تکبر ان عہدوں کا ہمزاد ہے۔ اِن میں اُن دنوں چھلکا پڑتا تھا۔
کاٹھ کی ہنڈیا تھی، کتنا چڑھتی۔ اِدھر سے اُدھر رلنے لگے۔ انہیں گلے لگانے والے البتہ داد کے مستحق ہیں۔ اُن کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتاہے۔ کبھی یہ نہ دیکھا کہ ان کی باتوں میں ہے کیا؟ ان کا حقائق سے کوئی تعلق ہے یا محض بسیار گوئی ہے اور مسخ شدہ حقائق؟ مولانا محمد علی جوہر کا تحریک آزادی سے تعلق ختم کرادیا۔ بیت المقدس کی بجائے ان کے جسد خاکی کو جزائر انڈیمان میں دفن کرادیا۔ افسوس یہ کہ قومی تاریخ کے اس بے رحمانہ قتل پر کسی حلقے سے کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ انہیں تو کُھل کھیلنے کے مواقع میسر تھے یا فراہم کئے جاتے تھے، جو ہاتھ لگا اس کی پگڑی اچھال دی۔ ایک طویل فہرست ان کی غلط بیانیوں کی مرتب کی جا سکتی ہے، کی بھی گئی ہے، جے آئی ٹی کی طرف سے۔ زینب کے قتل کے حوالے سے ہے، جس پر انہوں نے بے حساب جھوٹ بولا اور بالآخر پھنس گئے، کہ حقیقت سے ان کی باتوں کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ دعوے تو کرتے رہے، عدالت میں ثابت مگرکچھ نہیں کر سکے۔ جے آئی ٹی نے اٹھارہ الزامات ان کے گنوائے ہیں، جن میں قاتل کے 37بینک اکائونٹ سے لے کر مجرم کے غیر ملکیوں سے تعلقات تک کا حوالہ ہے اور بھی کئی الزام ہیں۔ بس بھرمار ہے بے بنیاد باتوں کی۔ پیمرا نے ان کے خلاف بعض کارروائیاں کی بھی ہیں، کچھ دوسرے حوالوں سے۔ مگر بات وہی کہ ایک جگہ سے نکالے گئے تو دوسرا بازو پھیلائے کھڑا تھا۔ کسی نے کبھی انہیں ٹوکا نہیں، نہ نگرانی کی۔ ایک کلرک رکھنا ہو تو کئی دن انٹرویو اور ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر ملک کے اہم معاملات پر بحث و مباحثہ کرنا ہو، ملک کو درپیش مشکلات اور حالات پر رائے زنی کرنی ہو، پیش گوئیاں کرنی ہوں، حل تلاش کرنے ہوں تو صرف ایک خوبی درکار ہے، گز بھر لمبی زبان، مرغے لڑانے کا تجربہ اور جھوٹی سچی کہانیاں گھڑنے کا فن کثیف۔ یہ خوبیاں ایک پورے گروہ میں ہیں، یہ ٹی وی کے گھس بیٹھئے ہیں۔ تربیت ان کی کبھی اور کہیں ہوئی نہیں۔ ایک خلا ذرائع ابلاغ کے اس نو وارد شعبہ، ٹی وی، میں تھا، جسے موقع ملاکدال کندھے پہ رکھ آ کھڑا ہوا۔ تجربہ کار صحافی کچھ جھجک میں رہ گئے، کچھ ہمیشہ کی طرح قسمت کے ہاتھوں مار کھا گئے۔ اِن کی گڈی چڑھ گئی۔طوطی بولنے لگا۔ جان تھی نہیں، جلد ہی کائیں کائیں پر آگئے۔ قوم اب تک انہیں ہر طرح سے بھگت رہی ہے۔بھگتتی رہے گی، مگر اس پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔
یہ اتنا گھمبیر اور حساس مسئلہ ہے کہ متعلقہ حلقوں کی اجتماعی توجہ کا متقاضی ہے۔ بلا تاخیر، اس طرف توجہ دئیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ معصوم زینب کے معاملے میں ان صاحب کی ہرزہ سرائی نے معاملے کو اور سنگین بنادیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کارروائی کی ہے۔ کچھ حقائق اس طرح سامنے آگئے۔ توقع ہے کہ قرار واقعی سزا ان صاحب کو ابھی ملنا باقی ہے۔ مگر اس رویہ کے آگے بند باندھنے کے لئے تو اخباری کارکنوں، مالکوں، اداروں، قانون دانوں اور تمام اسٹیک ہولڈروں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا، احتساب کا ایک نظام بنانا ہوگا، اندرونی بھی اور بیرونی بھی۔ بہت سی کہانیاں ہیں بیان کی منتظر، کبھی مناسب وقت پر وہ سامنے آسکتی ہیں، خاص طور پر ایک بہتر موثر لائحہ عمل بناتے وقت۔ ان سے رہنمائی لی جا سکے گی۔ فی الحال سوچیں، غور کریں، جائزہ لیں نفع نقصان کا، مالی نہیں، اخلاقی اور اجتماعی نفع اور نقصان کا۔ اور اس کی روشنی میں معاشرے کو مزید انتشارسے محفوظ رکھنے کے لئے اصول اور ضابطے بنا لیں اور ان پر عمل کریں۔ ان عطائی ڈاکٹروں سے معاشرے کو محفوظ رکھنا ہم سب کی، آپ سب کی ذمہ داری ہے، اولین ترجیح ۔ بنیادی بات یہ کہ یہ کام کس کو سونپا جائے؟ کوئی عدالت یہ کام کرے؟ خود ذرائع ابلاغ کے ادارے کریں؟ یا ساری ذمہ داری افراد پر چھوڑ دی جائے؟ مشکل سوال ہیں، مگر ان کا جواب حاصل کرنا ضروری ہے کہ مسئلہ کا حل وقت کا اہم ترین تقاضا ہے، پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین