• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا دیکھنا کچھ اتنا مشکل کام نہیں پر سامنے سے گزرنے والے منظروں کو ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کرنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں۔ میں اپنی ملازمت کے دنوں میں اور فرصت کے اوقات میں نگر ی نگری پھرا اور مشاہدے سے اپنی جھولی بھری۔ پچھلے دنوں کسی وجہ سے ، جو بعد میں لکھوں گا، وزنی مال اسباب ڈھونے والے بار بردار جفاکش یاد آئے۔بس پھر کیا تھا، وہ جو فلم کی ریل ہوتی ہے ، وہ چلنے لگی اور مختلف علاقوں میں طرح طرح کے قلی اور مزدور نظروں کے سامنے آنے لگے، جانے لگے۔ کلکتّے میں وہ رکشہ نہ صرف دیکھا بلکہ اس میں بیٹھا جسے شہر کے محنت کش کھینچ رہے تھے اور دوڑ رہے تھے۔ دلّی میں وہ لاغر اور نحیف سائیکل رکشہ والے دیکھے جن کی سوکھی ہوئی سیاہ ٹانگوں پر پسینے کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔ شملہ میں وہ قلی دیکھے جو علاقے کی اونچی نیچی سڑکوں پر مال اسباب ڈھو رہے تھے۔ وہ بوجھ تلے دب کر دوہرے ہورہے تھے۔ وہ اتنے جھکے ہوئے تھے کہ آنکھ اٹھا کر آگے کی طرف نہیں دیکھ پارہے تھے۔ ذرا سا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیری تھے جو باربرداری کے لئے شملہ جیسے ہل اسٹیشن پر کام کرنے آجاتے ہیں۔ اس پر خود آزاد کشمیر اور مری میں نظر آنے والے مزدور یاد آئے جن کے پیروں میں چمڑے کے جوتے نہیں بلکہ مونج اوربان کی چپلیں تھیں ۔ یہ بھی شاید اس لئے تھیں کہ ننگے پیر ہوتے تو بوجھ اٹھانے سے پیروں کی جلد پھٹ جاتی۔ کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر بھی زیادہ تر قلی کشمیر سے آئے ہوئے تھے اور سارے ہی بوڑھے ہورہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ ان کی اولادوں نے یہ کام کرنے سے انکار کردیا ہوگا۔ اپنے پروگرام ’ریل کہانی‘ کو ترتیب دینے کے لئے کوئٹہ سے کلکتے تک ریل کا سفر کررہا تھا۔ پاکستان کے ایک بڑے اسٹیشن کی اس عمارت میں گیا جہاں و ہ کانٹے والے کام کرتے ہیں جو اپنے تن بدن کا سارا زور لگا کر کبھی سگنل گراتے اور اٹھاتے ہیں اور کبھی ٹرین کی راہ بدلنے کے لئے لوہے کے تاروں کو زور سے کھینچ کر لائن بدلتے ہیں۔ وہ پسینے میں نہائے ہوئے تھے اور زور لگاتے لگاتے ان کے ماتھے کی رگیں پھول گئی تھیں۔ وہاں موجود سارے ملازم جوان تھے۔ میں نے ان کو بتایا کہ بھارت میں تو اب بجلی کے بٹن دبانے سے سگنل بھی بدلتے ہیں اور لائنیں بھی خود بخود بدل جاتی ہیں۔ میں نے ان سب کی ٹھنڈی آہیں سنیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اپنے بچوں کو بھی اسی کام میں لگائیں گے۔ میں ان کا جواب سن کر حیران رہ گیا۔ کہنے لگے کہ بچوں کو تو ہم سگنل باکس کی اس عمارت کے قریب بھی نہیں آنے دیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے ان پر ظاہر ہی نہیں ہونے دیا کہ ہم کیا کام کرتے ہیں۔ یہ مشقت کا جبر برداشت کرنے والا نظام بھی انگریز وں کا دیا ہوا تحفہ ہے ورنہ ہمیں اپنے ہاتھوں کرنا ہوتا تو اس کی بھی توفیق نہ ہوتی۔سگنل باکس میں کوئی ٹیلی فون یا وائرلیس کا نظام نہیں تھا۔ وہاں کا عملہ آتی جاتی ٹرینوں کے ڈرائیوروں کو کھڑکی سے منہ نکال کر اور چلّا چلّا کر ہدایات دے رہا تھا۔ یہ ہے ہمارا حال کہ ہم تو آج تک گدھے گاڑیاں چلا رہے ہیں جن پر اتنا بوجھ لادا جاتا ہے کہ ہم نے کئی بار دیکھا کہ وزن سے گاڑی پیچھے جھک گئی ہے اور غریب گدھا ہوا میں معلق ہوکر ٹانگیں چلا رہا ہے ۔
بوجھ لادنے اور اٹھانے کے جبر کی داستان یہاں ختم نہیں ہوتی، یہاں شروع ہوتی ہے کیونکہ اب جس بوجھ کا ذکر ہے وہ کسی جرم سے کم نہیں۔ اپنے شہروں اور آبادیوںمیں ہم ہر روز ان بے شمار بچّوں کو دیکھتے ہیں جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کے بھاری بھرکم بستے اٹھائے اسکولوں کو آتے اور پھر جاتے نظر آتے ہیں۔ وہ بستے کے بوجھ سے جھکے ہوئے ہوتے ہیں اور صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ سراسر جبر ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ باشعور ڈاکٹر چونک گئے ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ آئے دن سینکڑوں والدین اپنے بچوں کے ہاتھ تھامے ڈاکٹروں کے پاس آرہے ہیں کیونکہ بچّو ں کی پیٹھ ، کاندھوں، شانوں، کمر اور گھٹنوں تک میں درد رہنے لگا ہے۔ یہی نہیں، ان کے بدن کے وہ سارے جوڑ دکھ رہے ہیں جن پر بھاری بھرکم بستوں کا زور پڑتا ہے۔ با اختیار ڈاکٹروں نے متعلقہ حکام کو لکھ کر خبر دار کیا ہے کہ اس تشویشناک تکلیف کا علاج دواؤں سے نہیں، احتیاط سے ہوگا۔ فوراً ہی کارروائی کی جائے اور وزنی بستے اٹھانے کا سلسلہ جس قدر جلد ممکن ہو، موقوف کیا جائے۔ سچ تو یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے پھول جیسے بچوں کی صبح شام یہ حالت دیکھ کر ہم یوں پریشان ہیں کہ یہ کیا ہوگیا۔ ہم بھی کبھی بچے تھے، ہم بھی روز سویرے اسکول جاتے تھے۔ ہمارے ایک کاندھے پر ہلکا پھلکا بستہ لٹکا ہوتا تھا جس کی یہ شان تھی کہ اسکول جانے کی تیاری کے وقت یہ آواز لگتی تھی کہ بستہ تیار کرو۔ہماری کتابوں کے ساتھ ہی ہفتے بھر کا ٹائم ٹیبل آویزاں ہوتا تھا۔ ہم اسے دیکھتے جاتے تھے کہ کون سے پیریڈمیں کون سا مضمون پڑھایا جائے گا۔ بس اسی مضمون کی کتاب بستے میں رکھتے جاتے تھے۔ آخر اسے ایک کاندھے پر لٹکا کر ہنستے گاتے اسکول کو چلے جاتے تھے۔ اب تو لگتا ہے کہ نہ ٹائم ٹیبل کا تصور ہے نہ پیریڈ کا۔ بچہ ہر روز سال بھر کا کورس اٹھا کر جاتا ہے اور سہ پہر کو وہی بوجھ ڈھوکر واپس گھر کو آتا ہے اور کمر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے، زیادہ پرانی بات نہیں، کسی فائیو اسٹار اسکول نے اشتہار جاری کیا جس میں دکھایا گیا کہ خالی ہاتھ بچہ مزے سے اسکول کی طرف جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ریلوے اسٹیشن جیسا ایک قلی بچے کا بستہ سر پر اٹھا ئے چل رہا ہے۔ اشتہار میں اسکول والوں نے لکھا تھا کہ آپ کے بچّے کو بوجھ ڈھونے کی ضرورت نہیں، ہم ہر بچے کو ایک لاکرlocker دیتے ہیں جس میں وہ اپنی تمام کتابیں اسکول کی عمارت ہی میں رکھتا ہے۔خیال آتا ہے کہ یہ بے حسی ہے اور کچھ نہیں۔ اور کسی کا نہیں، کم سے کم ان نازک نازک سے بچوں کے بچپن ہی کا خیال کرلیا جائے۔ میرے زمانے کا نظام بحال کرنے میں کسی کا کچھ نہیں جاتا ورنہ یہ جوڑوں کا درد تو بڑا ظالم ہوتا ہے، بیٹھ جائے تو تمام عمر کا روگ بن جاتا ہے۔ ایسے میں ہمارے بزرگ دانش ور ڈاکٹر مختار الدین احمد کا ایک قطعہ یاد آتاہے جس میں معذرت کے ساتھ اک ذرا سی تبدیلی کرکے پتھر ہٹا کر اس کی جگہ بستہ رکھ دیا ہے :
تخلیق کا جب اس نے فسانہ لکھا
ہر چیز کا کیا ہوگا ٹھکانہ لکھا 

بستے کے مقدر میں لکھا بھاری پن
اور میرے مقدر میں اٹھانا لکھا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین