• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز مجھے ایک کال آئی ’’میں ضمیر بول رہا ہوں‘‘ مگر یہ آواز ضمیر جعفری کی نہیں تھی۔ انہیں تو ہم سے جدا ہوئے برس ہا برس گزر چکے ہیں۔ وہ جب کبھی کال کرتے تھے تو یہی کہا کرتے تھے ’’میں ضمیر بول رہاہوں‘‘ چنانچہ مجھے مجبوراً پوچھنا پڑا ’’کون ضمیر؟‘‘ ادھرسے آواز آئی ’’ضمیر نفیس‘‘ میں نے بہت عرصے کےبعد یہ آوازسنی تھی بلکہ ضمیرنفیس سے ملے ہوئے بھی اللہ جانے کتنی ’’صدیاں‘‘ گزر چکی تھیں۔ ضمیر نفیس میرے قریبی دوستوں میں سے نہیں تھا مگر جب میں بہت زیادہ آوارہ گرد ہوتاتھا، مشاعروں اور کتابوں کی تقریب رونمائی میں پاکستان کے دور دراز شہروں اور قصبوں میں بھی جایا کرتا تھا۔ ان دنوں راولپنڈی اسلام آباد میری خصوصی ’’آماجگاہ‘‘ تھی کہ یہاں ایک اعلیٰ درجے کا افسانہ نگار محمد منشا یاد رہتا تھا، جو میرا عزیز ترین دوست تھا۔ وہ سارا سال ادبی تقریبات کا ’’مجمع‘‘ لگائے رکھتا تھا۔ پھر یہاں انعام الحق جاوید بھی تو میرے لئے باعث کشش تھا او ر آج بھی ہے۔ ہم سب کا پیارا محمد منشا یاد اللہ کوپیارا ہو چکا ہے۔ ان دنو ںمیری دوستی اپنے بہت موڈی دوست اور اے کلاس افسانہ نگار مظہر الاسلام سے بھی تھی۔ اس کے علاوہ شمیم اکرام الحق، فریدہ حفیظ، غضنفر مہدی، محمد اظہار الحق، حسن عباس رضا، صدیق سالک (مرحوم)، غلام ربانی آگرو، پری شان خٹک، مسیح الدین احمد صدیقی، یہ آخری تین دوست اکیڈمی آف لیٹرز سے وابستہ تھے۔ ان کےعلاوہ فتح محمد ملک، محمودہ نازیہ، خالدہ ملک اور میرے کالج فیلو جلیل عالی سے ملنا جلنا رہتا تھا۔ جلیل عالی مجھے ہمیشہ سے پیارا رہا ہے، مگرکچھ عرصے سے وجہ بتلائے بغیر مجھ سے ناراض ہے۔ کوئی بات نہیں کسی دن جا کر اسے منالوں گا۔ انور مسعود، سرفراز شاہد، رشید امجد اور سب سے بڑھ کرمیرے مرشد شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان کے ساتھ بھی نشستیں رہتی تھیں۔ ممتاز مفتی اپنے اسکوٹر پرحلقہ اربا بِ ذوق کے اجلاس میں شرکت کےلئے آیا کرتے تھے۔ مجھے جب بھی ملتے، کہتے ’’یار! تم افسانہ کیوں نہیں لکھتے؟ تمہارے بہت سے کالم اے کلاس شارٹ اسٹوری کے زمرے میں آتے ہیں۔‘‘ میں کہتا ’’مفتی صاحب! میں پاگل ہوں جوآپ اور اس عہدکے بہت بڑے بڑے افسانہ نگاروںکو کمپیٹ کرنے کی حماقت کروں اوربہت زور لگاکر بی کلاس افسانہ نگاروں کے ذیل میں شمار ہوجائوں۔ میں اے کلاس کالم نگار ہوں، بی کلاس افسانہ نگار نہیں بنناچاہتا۔‘‘ 
اب یہ سوچنے بیٹھا ہوں تو کتنے ہی نام یاد آتے چلے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر بشیر گورایا، احسان اکبر، اب یہ دونوں سفید ریش ہیں اور پھرمیرا محبوب شاعر احمد فراز تھا۔ میرا یار منصور قیصر تھا، میرے دلدار سید ضمیر جعفری تھے اور پروین شاکر بھی تو تھی جو اپنی شاعری کوزندہ رکھ کر خود اسلام آباد کے قبرستان میں جابسی ۔ ان کے علاوہ احمد دائود، طارق شاہد ، رخسانہ صولت اور پھراپنے بہت پیارے منیراحمد شیخ، وقاربن الٰہی اور جبار مرزا بھی تو تھے۔ واضح رہے میری دوستیاں اورقربتیں عہدہ و منصب ا ور مرتبے یا عمر میں چھوٹے بڑے کے حوالے سے نہ پہلے کبھی تھیں اور نہ آج ہیں۔ بس جو اچھا لگے وہ اچھا ہے جو اچھا نہ لگے وہ اس کی یا میری قسمت! مگر میں جھگڑالو نہیں ہوں۔ کسی سے دل نہ ملے تو خاموشی سے الگ ہو جاتا ہوں۔ میں نے اوپر کی سطور میں جن دوستوں کا ذکر کیا ان میں سے جوان دوستوں کے ساتھ راولپنڈی کے شالیمار ریستوران میں محفلیں جمتی تھیں۔ اب تو یہ سارے میری طرح بابے ہوگئے ہیں ا ور ہاں یاد آیا شالیمار ریستوران کا مالک گنجا تھا اور اس کی چھیڑ ’’چکن‘‘ تھی اور وہ کائونٹر پر بیٹھا ہوتا تھا۔ اس کے فون کی گھنٹی بجتی، ادھر سے کوئی پوچھتا ’’چکن ہے؟‘‘ اس کے بعدوہ اپنا سر کائونٹر کے نیچے چھپا کر ماں بہن کی گالیاں دیتا۔ یارلوگوں میں اس کی یہ چھیڑ اور اس پر اس کا ردعمل اتنا مقبول ہوا کہ جو لوگ کینیڈا، امریکہ یا برطانیہ میں جا کر آباد ہوگئے تھے وہ وہاں سے فون کرکے پوچھتے ’’چکن ہے؟‘‘ اور ہم ریستوران میں بیٹھے نوجوان جب دیکھتے کہ اس نے اپنا سر کائونٹر کے نیچے چھپا لیا ہے تو ہم سمجھ جاتے کہ اس وقت وہ مخاطب کوگالیوں کی ایسی ایسی قسم سے نوازرہا ہے جو دنیا کی کسی بھی لغت میں موجود نہیں ہیں۔ اب سب کچھ بکھر گیاہے۔ سب زندگی کے کولہو کے آگے بیلوں کی طرح جھکے اپنی کمریں دہری کر چکے ہیں۔ ہم سب بوڑھے ہوگئے ہیں۔ وہ پہلی جیسی امنگیں، جوش و جذبہ اور فراغت میسر نہیں رہی کہ ان ’’فضول‘‘ مصروفیات پرصرف کرسکیں جبکہ یہ فضول مصروفیات ہی زندگی کی علامت تھیں۔ ہم زندگی کی اصل لذت سے محروم ہوگئے ہیں۔
میں نے کالم کا آغاز ضمیر نفیس سے کیا تھا۔ ضمیر نفیس بھی اس کالم میں درج تمام دوسرے دوستوں کی طرح ادب سے وابستہ تھا اور ہے۔ اس کا ذریعہ معاش صحافت ہے بلکہ اب وہ سینئر صحافی ہے۔ جب اس نے کہا ’’میں ضمیر نفیس بول رہا ہوں‘‘ تو میں ماضی کی طرف چلا گیااور اس سے کچھ دیر گپ شپ جاری رکھی مگر میں اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ ان دنوں زندگی کے کسی بھی شعبے کے بڑے آدمی کےفون کی گھنٹی بجے اور دوسری طرف سے صرف یہ کہا جائے ’’میں ضمیر بول رہا ہوں‘‘ تو اس کےہاتھ سے فون چھوٹ جائے گا، وہ پریشان ہو جائے گا کہ بڑی مشکل سے ضمیر کا گلاگھونٹ کر اس منصب تک پہنچے تھے مگر یہ کم بخت ابھی تک نیندیں حرام کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اس خیال کے ذہن میںآتے ہی میں نے ارادہ باندھا ہے کہ میں ضمیر نفیس سے ملوں گااور اسے کچھ ناموں کی ایک فہرست دوںگا۔اس کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ روزانہ انہیں فون کرے اور صرف اتنا کہے ’’میں ضمیر بول رہا ہوں‘‘ ہم ان بے ضمیروں کا ضمیر تو نہیںجگا سکتے، ان کی عیش وعشرت کامزاتوکرکرا کرسکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین