• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین میں (ن) لیگ کی سب سے زیادہ متحرک اور فعال مائزہ حمید ایم این اے کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور سے 12کلومیٹر دور واقع چھوٹے قصبے گڑھی اختیار خان پر 1753میں حاجی اختیار خان نے حملہ کے بعد، اس کو اپنے نام سے منسوب کر دیا۔ تاریخی اعتبار سے اہم قصبہ میں اعوان فیملی سے تعلق رکھنے والے حضرت عبدالکریم کے ہاں 1881 خواجہ محمد یار فریدی پیدا ہوئے، آپ نے چاچڑاں شریف سے 1900میں صرف 19سال کی عمر میں بظاہر درسیات، لیکن حقیقت میں مہاروی علم و فیض مکمل کرنے کے بعد سند فراغت حاصل کی، آپ کے شیخ خواجہ غلام فرید نے1901 میں وفات پائی۔ توحید کی وادیوں، عشق کی فضائوں، ہاتھ میں شریعت کا پرچم، دل میں طریقت کا علم، شریعت کے پاسدار، طریقت کے نگہبان، فریدی عظمتوں و ولولوں کے امین، رومی و سعدی کے قلندر، فریدالدین کے شیدا، چشتی ذوق کے متوالے، امن و محبت کے سفیر، فکر صوفیاء کے امین، محبت وچاہت کے اسیر، اجمیر و کلیر کی توانائی، بغداد و سرہند کی فکر، دردمند خطیب، بلبل گلزار، روشن دماغ، صوفی برحق، انسانوں اور ذروں کو تڑپانے، سوز و وساز کی لگن، جذب و سرور میں کھوئے رہنے، کیف و مستی میں ہردم ڈوب کر رہنے، دل کی تاروں کی تھرتھراہٹ سے دوسروں کو بے خود کرنے، علم کی پختگی، شعر کے ذوق، سخن کی چاشنی والے اور مسائل کے حل کے لئے دیوانہ وار (آج کے انڈیا) بنگلہ دیش، افغانستان اور کشمیر کا سفرجاری رکھتے ہیں۔ جب جلسوں میں بولتے، تو لوگ اس بنیاد پر سنتے، کہ شاید قبولیت کا وقت آ پہنچا ہے۔ اسی لئے جس نے آپ کو پڑھا، یا سنا، وہ عشق و مستی کی موجوں میں غرق ہو گیا، نہ اپنا رہا نہ کسی اور کا بس اللہ اللہ کرتا ’’اللہ‘‘ کا ہو گیا۔ وہ عشق و سرور کی موجوں میں زندہ نہیں رہا، بلکہ فنا فی اللہ میں غرق ہو گیا، وہ صوفی ایسے تھے کہ مستوں کی مکین گاہیں آباد کرنے والے تھے ناکہ برباد کرنے والے، حضرت ابوذر غفاری سے متاثر عثمان بن مظعون نے اللہ کے نبیﷺ سے عرض کیا، دل کرتا ہے دنیا، بیوی، بچے، عطر، گوشت، مال و دولت سب چھوڑ دوں اور پہاڑوں میں نکل جائوں، لیکن آپﷺ نے اجازت نہ دی، کیونکہ اسلام معاشرتی دین ہے اور بہادر وہی ہے جو معاشرے میں زندہ رہ کر کام کرے۔ آپ ہمیشہ قرآن و سنت کی مضبوط دلیل کے ساتھ بات کرتے، حضرت شہاب الدین سہروردی کے نزدیک ’’جس حقیقت کو شریعت رد فرمائے وہ حقیقت نہیں بے دینی ہے‘‘ امام ربانی ’’مکتوبات، جلد اول، مکتوب 266میں فرماتے ہیں کہ’’ میرے نزدیک امام ابوحنیفہ، امام یوسف، امام محمد کا قول بہتر ہے نہ کہ ابوبکر شبلی اور ابوالحسن نوری کا عمل‘‘ آپ نے ایک بار دینی مسائل کی باریکیوں کے بادشاہ مولانا احمد رضا بریلوی کی موجودگی میں خطاب کیا، تو آپ کو مولانا احمد رضا نے منبر رسولﷺ پر پھولوں کا ہار پہنایا اور فرمایا ’’سرآمد واعظین پنجاب‘‘ خواجہ محمد یار، علامہ محمد اقبال کو، اُن کی خواہش پر ’’جاوید منزل ‘‘ گڑھی شاہو لاہور مثنوی شریف سے محظوظ بھی کرتے رہے۔ حضرت اقبال نے جب افلاطون کے بارے اشعار کہے، تو اس موقع پر حضرت اقبال پر چند لوگوں نے اعتراض کیا۔ خواجہ محمد یار فریدی نے عرض کیا، حضرت برائے مہربانی اگلے ایڈیشن میں ان کو حذف کر دیں۔ جس کو علامہ اقبال نے تسلیم کیا۔ لاہور ی پنجابی بولنے والے، بادشاہی مسجد، عرس داتا گنج بخش، مسجد وزیر خان، حزب الاحناف اور جامعہ نعمانیہ کے جلسوں کو خوب گرماتے، آپ تاریخی مدرسہ انجمن نعمانیہ کے صدر بھی رہے، اس مدرسہ کی آج بھی کئی ایکڑ زمین ہے اور آج کل اس کے ’’کل اختیارات‘‘مولانا خادم رضوی حسین کے پاس ہیں۔ آپ نواب بہادر یار جنگ اورمولانا ابوالکلام آزاد کے دور کے نامور مقرر ہیں۔ آپ لفظوں کے ساتھ کھیلتے نہیں تھے، بلکہ لفظوں کو اپنے ساتھ کھلاتے تھے۔
حضرت خواجہ محمد یار فریدی فرماتے ہیں۔
ہم نامِ محمد ہوں، مداح محمدﷺ ہوں
ہاتھوں سے نہ چھوٹے گا دامان محمدﷺکا
محمد محمد پکیندیں گزر گئی
اَحد نَال اَحمد ملیندیں گزر گئی
آج خیبرپختوا ریفرنڈم کے نتیجہ میں پاکستان کا حصہ ہے، تواس میں آپ کا اہم کردار ہے۔ مجھے لگتا ہے جب آپ خطاب کرتے ہوں گے، تو درختوں پر بیٹھے پرندے زمین پر گرتے ہوں گے اور کچھ ہوائوں میں رقص کرتے ہوئے غرق ہوجاتے ہوں گے، آپ کا دیوان چار زبانوں فارسی، اردو، پنجابی اور سرائیکی پر مشتمل ہے، اشعار میں آپ نے عربی زبان کا استعمال بڑے عمدہ انداز میں کیا ہے، خیال ہے، اگر یہ مرد درویش تحریر کے میدان میں کام کرتے، تو آج برصغیر کے پاس دوحضرات اقبال ہوتے۔ دریائوں کے پانی کو عبور کرنے، علمی میدانوں میں گھوڑے دوڑانے اور سوئی کے دھاگہ سے لوگوں کو پرونے والے بالآخر خواجہ محمد یار فریدی 1948 میں 67سال کی عمر میں لاہور انتقال ہوا، قیام پاکستان کی ہنگامی صورت حال میں لاہور دربار میاں میر تدفین کی گئی، چھ ماہ بعد گڑھی اختیار خان میں تدفین کی گئی، یہاں سے بھی 12سال بعد (اس موقع پر تو دو دن تک آپ کے صندوق کی زیارات کرائی گئی، لکڑی تو لکڑی لوہے کے کیلوں کو زنگ نہیں لگا تھا) موجودہ مزار والی جگہ پر دفن کیا گیا۔ دونوں وقت کھدائی کے بعد لوگوں نے اپنی ایمانی کیفیات میں اضافہ کیا، آپ کے صاحبزادے غلام نازک کریم بھی اپنے وقت کے اعلیٰ پایہ کے عالم اور صوفی تھے۔ آپ کے پوتے سجادہ نشین خواجہ غلام قطب الدین فریدی وہ واحد خوش نصیب تصوف کے رکھوالے ’’پیرومرشد‘‘ ہیں، جو یونیورسٹیوں، کالجوں اور پوری دنیا میں تصوف پر کام کر بھی رہے ہیں، معروف شاعر اور میرے مہربان بزرگ فریدی صاحب کی صدارت میں اور صاحبزادہ غلام نصیر الدین چراغ کی زیرنگرانی 27مارچ سے یکم اپریل عرس کی شاندار تقریبات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ عرس کے موقع پر تقریری مقابلہ طلبا و طالبات، محفل مشاعرہ، انٹرنیشنل تصوف سیمینار،محفل سماع ہونے جار ہی ہے۔ دادا کی طرح خواجہ غلام قطب الدین فریدی بھی لازوال شاعر ہیں، جن کا ایک مقبول عام شعر ہے ۔
میں اُنﷺ کا نام لیتا جارہا ہوں
میرے سب کام ہوتے جا رہے ہیں
آخر میں خبر یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں (لیکن کچھ عرصہ لگے گا) میاں محمد نواز شریف بیگم کی عیادت یا پھر اپنی صحت خرابی کی بنا پر بیرون ملک جا سکتے ہیں، جبکہ جلوموڑ تا ٹھوکر نیاز بیگ کینال بنک روڈ لاہور پر سفری تفریحی کشتیاں چلانے کا منصوبہ گرافک کے آخری مراحل سے گزر رہا ہے۔ ممکن ہے، اعلان الیکشن سے پہلے، جبکہ تعمیر دوبارہ پنجاب میں حکومت بننے کے بعد شروع کی جائے ۔ادارہ تعلیم و تحقیق کے زیراہتمام آج مقامی ہوٹل لاہور میں ’’پیغام پاکستان فتویٰ ‘‘ کے حوالے سے’’پیغام پاکستان کے بعد‘‘ کے موضوع پر اہل زبان و قلم کی علمی، فکری اور سنجیدہ نشست بردارِ عزیز خورشید ندیم کی دعوت اور ہر دلعزیز مجیب الرحمٰن شامی کی صدارت میں ہونے جارہی ہے۔ جس کامقصد تازہ بیانیہ جاری ہونے کے بعد آگے غوروفکر کیوں رک گیا، زبانی جمع خرچ کے علاوہ سماجی جڑوں کی آبیاری کیلئے اس فتویٰ کی روشنی میں ادارے کیوں تشکیل نہیں دئیے جار ہے۔ آئی بی کے سربراہ آفتاب سلطان 2،اپریل کو ریٹائر ہورہے ہیں۔ ’’اجتہاد‘‘ کے مطابق وزیرِ اعظم نے ان کی مدت ملازمت میں مزید توسیع منظور نہیں کی۔ نئے سربراہ کی دوڑ میں تین نئے نام گردش کر رہے ہیں جن میں نوید الٰہی ،خالق دادلک اور ڈاکٹر سلیمان شامل ہیں۔ اگرچہ تینوں افسران اچھی شہرت کے حامل ہیں، مگر اجتہاد کے مطابق وزیر اعظم اگر ستارہ شجاعت پانے والے پروفیشنل اور تجربہ کار آئی بی آفیسر نوید الٰہی کو تعینات کریں، تو زیادہ مناسب ہوگا۔ نازک ملکی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک تجربہ کار ہی اس عہدہ کے لئے موزوں ہے۔ برادر عزیز پیر سید طاہر رضا بخاری کے والد گرامی کے نارنگ منڈی عرس میں شرکت کا موقع ملا، اس نقشبندی درگاہ کے شاندار پروگرام میں بڑے جاندار علما و مشائخ موجود تھے، آخر میں وزیراعلیٰ پنجاب سے کہوں گا، جامعہ نعیمیہ میں ہونے والے واقعہ کی رپورٹ پبلک کی جائے، کہ یہ واقعہ منصوبہ تھا، حادثاتی یا پھر جذباتی عمل۔ خواتین گھروں میں، مرد مساجد میں عصر کی نماز کے بعد ’’ہر دکھ درد کی ’’دوا‘‘ بس درودِ مصطفی ﷺ80 بار پڑھنے کا اہتمام کریں۔ 998)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647)

تازہ ترین