• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب تو سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی کہہ دیا ہے کہ معزول وزیراعظم نوازشریف کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مقدمہ تو پاناما پیپرز پر تھا مگر ان کے خلاف فیصلہ اقامہ پر آگیا۔انہوں نے یہ کہہ کر دراصل 28جولائی 2017ء کے فیصلے سے واضح طور پر اختلاف کیا یعنی کیس کچھ اور تھا اور فیصلہ کسی اور مسئلے پر آگیا۔گزشتہ 8ماہ سے نوازشریف کا بیانیہ بھی یہی ہے کہ جب ان کے خلاف کچھ بھی کرپشن نہ ملی تو انہیں اقامے کو بنیاد بنا کر نکال باہر پھینکا گیا کیونکہ مقصد صرف یہ تھا کہ انہیں وزیراعظم کے عہدے سے ہر صورت ہٹانا ہے ۔ ان کی رائے کو جانبدارانہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ متاثرہ فریق ہیں مگر جب سپریم کورٹ کے ایک معزز جج بھی اس فیصلے پر متردد ہوں تو اس پر نہ صرف غور کرنے بلکہ نظر ثانی کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کی جانی چاہئے ۔پہلے دن سے ہی بہت سے آئینی اور قانونی ماہرین نے اس فیصلے کو کمزور قرار دیا جس کی مثال عدالتی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ نامی گرامی وکیل ایس ایم ظفر کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس فیصلے کی بنیاد کمزور ہے ۔ اس طرح کی موثر آوازوں کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ فیصلہ تو ہو گیا اس پر عملدرآمد بھی ہو گیا اب اس کو تبدیل یا ختم کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ایک حل تو یہ ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار خود ہی فل کورٹ بٹھائیں اور اس فیصلے پر تمام ججوں کی رائے لیں ۔ جب تمام جج صاحبان اس پر رائے دیں گے تو پھر کسی کے پاس بھی اس پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں رہے گی ۔ چیف جسٹس فل کورٹ جتنی جلدی بلا لیں اتنا ہی بہتر ہو گا اور جو سیاسی طوفان اس فیصلے کی وجہ سے آیا ہوا ہے اس کو بھی روکا جاسکے گا ۔کئی مثالیں موجود ہیں جب سپریم کورٹ نے خود ہی اپنے کئی فیصلوں پر دوبارہ نظر ڈال کر انہیں تبدیل کیا حالانکہ ان کے بارے میں نظر ثانی کی درخواستیں بھی خارج ہو چکی تھیں ۔ آئین کے مطابق عدالت عظمی کی بے انتہا پاورز ہیں جن کے تحت وہ اپنے ہی فیصلوں کو ریویو کر سکتی ہے۔28جولائی کے فیصلے کی وجہ سے ہونے والی سیاسی خرابی کو دور کرنے کا دوسرا حل یہ ہے کہ پارلیمان آئین میں ترمیم کرکے اس کو ختم کر دے تاہم اس آپشن پر عملدرآمد بہت مشکل ہے اور اس سے سیاسی ٹکرائو مزید بڑھ سکتا ہے ۔اس کے علاوہ اس راستے سے پارلیمان اور عدالت عظمیٰ کے درمیان جھگڑا جنم لے سکتا ہے۔یقیناً ن لیگ کے مخالفین خصوصاً پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ڈٹ کر مخالفت کریں گے کہ کوئی بھی ایسی ترمیم پاس نہ ہو سکے ۔نہ ہی ایسا سیاسی ماحول ہے کہ ایسی کوئی ترمیم لائی جا سکے اور نہ ہی ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کے پاس پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت موجود ہے ۔ ہاں البتہ آئندہ عام انتخابات کے بعد یہ جماعتیں اس مسئلے پر غور کر سکتی ہیں اگر ان کے پاس مطلوبہ عددی برتری ہو ئی۔بعض مبصرین کےنزدیک جان بوجھ کر ایسا ماحول بنایا جارہاہے کہ کوئی جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے اور آز اد امیدوار ایک بڑی تعداد میں منتخب ہو کر آجائیں جن کو دوسری جماعتوں (مائنس ن لیگ )کے ساتھ ملا کر ایک لولی لنگڑی وفاقی حکومت بنا لی جائے ۔ اس ’’عظیم مقصد‘‘ کے حصول کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں جن میں آئندہ چند ہفتوںمیں بڑی تیزی آئے گی۔اصل ٹارگٹ ن لیگ ہے جہاں سے کافی سارے ’’الیکٹ ایبلز ‘‘کواسے چھوڑنے پر مائل اور مجبور کیاجائے گا۔ ان کو یا تو پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف میں شامل کیا جائے گا یا آزاد الیکشن لڑنے کا کہا جائے گا ۔ اگر واقعی مفروضےکے مطابق ’’ہنگ پارلیمنٹ ‘‘ معرض وجود میں آگئی تو ایسی آئینی ترمیم تو دور کی بات ہے ملک میں سیاسی افراتفری میں مزید اضافہ ہو گا اور ایسے انتخابات کے نتیجے میں جو بھی حکومت بنے گی وہ سوائے ایک کٹھ پتلی کے کچھ بھی نہیں ہو گی۔مگر ہمارا یہ کہنا ہے کہ ایسے بہت سے منصوبے بنتے رہتے ہیں جن میں کچھ کامیاب ہوتے رہتے ہیں اور کچھ ناکام۔ مثلاً 2002کے عام انتخابات جو کہ پرویز مشرف نے کروائے تھے اور بھرپور دھاندلی کی تھی، میں بھی وہ کنگز پارٹی کو واضح اکثریت دلانے میں ناکام رہے تھے اس کے بعد انہوں نے پیپلزپارٹی میں سے ایک ’’محب وطن‘‘ گروپ بنا کر حکومت بنانے کے لئے عددی کمی کو پورا کیا مگر پھر بھی میر ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی برتری سے ہی وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔ سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں جو گند ڈالا گیا اس کی وجہ سے ن لیگ اپنا چیئرمین منتخب نہ کرا سکی مگر اس سے بہت سے ایکٹرز کے چہرے عیاںہوئے ۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایسی سینٹ کے ہوتے ہوئے کوئی خاطر خواہ قانون سازی ہو سکتی ہے بالکل نہیں مگر پھر بھی گالی پارلیمان اور سیاستدانوں کو ہی پڑتی ہیںاور باقی سب پویتر ہی رہتے ہیں ۔ یہ سارا تماشا کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ ن لیگ نہ تو کوئی آئینی ترمیم اور نہ ہی کوئی قانون سازی کر سکے جس سے اس فیصلے، جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کو ختم کر سکے ۔پچھلے 8ماہ سے یہی ا سکیمیں بن رہی ہیں اور ان پر عمل ہو رہاہے کہ کس طرح نوازشریف کی مقبولیت کو کم کرنا ہے مگر سب تدبیریں الٹی پڑ رہی ہیں ۔ خیال کیا گیاتھا کہ 28جولائی کا فیصلہ آیا اور سابق وزیراعظم سیاسی میدان میں تن تنہا کھڑے ہوںگے مگر بجائے ایسا ہونے کے ان کی مقبولیت مزید بڑھ گئی ۔ جوں جوں دن گزرتے گئے اور ان کے خلاف شکنجہ کسا جاتا رہا ان کی عوامی پذیرائی میں اضافہ ہوتا رہا ۔ایسے نتائج سے ان کے مخالفین کی فرسٹیشن بڑھتی گئی اور وہ اپنی سازشیں مزید تیز کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔دوسروں کے اشارے پر کچھ افراد ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس جماعت سے ٹکٹ ملنے کی کم ہی امید تھی کیونکہ ان کی کمٹمنٹ ہمیشہ مشکوک رہی ۔ ان میں کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہر الیکشن سے قبل اس طرح کا کھیل رچانا ہوتا ہے اور اگر وہ منتخب ہو جائیں تو پھر حکومتی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی ہوتی ہے ۔یہ دراصل پکے لوٹے ہیں جو اپنا اسٹیٹس کبھی بھی بدلنے کو تیار نہیں ہوتے۔ سازشیوں اورا سکیموں کے اس بھر پور ماحول میں مولانا فضل الرحمن کا بیان آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے اگر وہ سیاستدان جو کہ کسی دوسروں کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں، اس پر تھوڑا سا غور بھی کر لیں۔ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت لاچار اور بے بس ہے ٗ 1970ء کا دور واپس آگیا ہے ٗ سیاستدان متحد نہ ہوئے تو ذلیل ہوں گے ٗ ادارے غلامانہ ذہنیت سے نکلنے کو تیار نہیں ٗ یہ سیاسی نظام کو سوالیہ نشان بنا رہے ہیں ٗ لوگوں کے دلوں میں عوامی نمائندوں کے لئے نفرت پیدا کی جارہی ہے ٗ قوم اس صورتحال سے چھٹکارا چاہتی ہے ٗ سب کو پتہ ہے کہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں ٗ سیاستدان سب سے زیادہ مظلوم ہیں اور جب اپنے ہی لوگوں کو دشمن کہا جائے گا تو حالات کیسے بہتر ہوںگے۔مولانا صاحب نے بجا طور پر سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین