• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن ایکٹ 2017ء الیکشن کمیشن کو زیادہ طاقتور بناتا ہے

الیکشن ایکٹ 2017ء الیکشن کمیشن کو زیادہ طاقتور بناتا ہے

اسلام آباد (انصار عباسی) الیکشن ایکٹ 2017ء الیکشن کمیشن کو نگران حکومت سے زیادہ طاقتور بناتا ہے۔ نگران حکومت اسی قانون کے تحت صرف روزمرہ کے امور نمٹانے کیلئے ہی کام کر سکتی ہے اور اسے کوئی بڑا پالیسی فیصلہ لینے یا کوئی بڑی انتظامی تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ قانون کے تحت، نگران حکومت بنیادی طور پر ’’قانون کے مطابق الیکشن کرانے کیلئے کمیشن کی معاونت کیلئے موجود ہوگی‘‘ اور اسے اس وقت تک افسران کے تبادلے کی اجازت نہیں ہوگی جب تک الیکشن کمیشن نہ کہے۔ جنرل مشرف کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ ختم کرنے یا پھر نواز شریف کی ممکنہ جیل کی سزا معطل کرنے جیسے فیصلے تو نگران حکومت کے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں ہیں، قانون کے مطابق نگران حکومت کو عوام کے مفاد میں معمول کے کاموں اور سرگرمیوں، غیر متنازع اور فوری معاملات نمٹانے تک محدود رکھا گیا ہے، اور یہ اقدامات انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی حکومت واپس لے سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کے برعکس اور الیکشن ایکٹ 2017ء کی صورت میں منظور کیے جانے والے انتخابی اصلاحاتی پیکیج کی صورت میں آئندہ نگران حکومت صرف محدود کردار ہی ادا کر سکتی ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق نمبر 230؍ نگران حکومت کے فرائض کے متعلق ہے۔ اس شق میں لکھا ہے کہ: ’’۱۔ نگران حکومت (الف) روزمرہ کے وہ معمولات نمٹائے گی جو سرکاری معاملات چلانے کیلئے ضروری ہوتے ہیں (ب) قانون کے مطابق الیکشن کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کرے گی، (ج) عوام کے مفاد میں خود کو روزمرہ کے غیر متنازع اور ہنگامی طور پر نمٹائے جانے والے معاملات تک محدود رکھے گی، یہ اقدامات الیکشن کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت واپس لے سکتی ہے (د) ہر شخص اور سیاسی جماعت کیلئے غیر جانبدار رہے گی۔‘‘ اسی شق کی دوسری ذیلی شق میں نگران حکومت کے کردار کو محدود کیا گیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ نگران حکومت (الف)بڑے پالیسی فیصلے نہیں کرے گی؛ ماسوائے ہنگامی معاملات؛ حصہ اول گزیٹ پاکستان ایکسٹرا 2؍ اکتوبر 2017ء 1547 (ب) ایسے کوئی فیصلہ یا پالیسی سازی نہیں کرے گی جو آئندہ کی منتخب حکومت کے کام کاج میں مداخلت تصور ہو (ج) عوامی مفاد کیخلاف کوئی معاہدہ یا کنٹریکٹ نہیں کرے گی (د) کسی بھی دوسرے ملک یا بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ بڑے پیمانے پر مذاکرات نہیں کرے گی سوائے غیر معمولی حالات کے، بین الاقوامی سطح پر کوئی بڑا وعدہ نہیں کرے گی (ہ) سرکاری ملازمین کو ترقیاں یا ان کے تبادلے نہیں کرے گی لیکن عوامی مفاد میں قلیل مدتی یا قائم مقام تقرری کی جا سکتی ہے۔ (و) جب تک ضروری نہ سمجھا جائے اس وقت تک سرکاری ملازمین کے تبادلے نہیں کر سکتی، اس کیلئے نگران حکومت کو الیکشن کمیشن کی منظوری درکار ہوگی، (ز) انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرے گی یا کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جو کسی بھی طرح سے آزاد اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیخلاف تصور ہو۔‘‘ ذیلی شق نمبر تین میں نگران وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے وزرا کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کمیشن کے پاس اپنے اور اپنے اہل خانہ اور زیر کفالت افراد پر واجب الادا واجبات، اثاثہ جات کی تفصیلات 30؍ جون تک فارم بی پر جمع کرائیں۔ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق یہ گوشوارے سرکاری گزیٹ میں شائع اور جاری کرے گی۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت، الیکشن پروگرام کے اجرا کے بعد اور سرکاری گزیٹ میں ریٹرن امیدواروں کے نام جاری ہونے کے بعد کوئی بھی حکومت یا عہدیدار الیکشن کے مقاصد کیلئے تعینات کیے گئے یا مقرر کیے گئے افسران کا الیکشن کمیشن کی تحریری منظوری کے سوا تبادلہ نہیں کرے گا۔

تازہ ترین