• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قرار داد پاکستان: برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا سنگ میل

قرار داد پاکستان: برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا سنگ میل

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

23 مارچ 1940 کو منظور ہونے والی قرار داد پاکستان مسلمانان برصغیر کی قومی زندگی اور سیاسی جدوجہد کا وہ سنگ میل ہے جو ان کی سیاسی قیادت کی بصیرت، برصغیر میں مسلمانوں کے مستقبل کے تحفظ اور ان کے حقوق کی ضمانت کے موثر اور دیر پا بندوبست کا آئینہ دار ہے۔ اس قرار داد میں طے پایا تھا کہ : " غور و خوص کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ رائے ہے کہ کوئی آئینی منصوبہ بغیر اس کے اس ملک میں قابل عمل اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا جب تک وہ مندرجہ ذیل بنیادی اصولوں پر مبنی نہ ہو۔ یعنی یہ کہ حد بندی کر کے اور جغرافیائی اکائیوں کے اعتبار سے حسب ضرورت رد و بدل کے بعد متصل واحدوں کو ایسے منطقے بنا دیا جائے کہ وہ علاقے جن میں مسلمان بہ اعتبار تعداد اکثریت میں ہیں،جیسے ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی منطقوں میں اس طرح یک جا ہوجائیں کہ وہ ایسی خود مختار ریاستیں ہوں جن کے واحدے اندرونی طور پر با اختیار اور خود مختار ہوں۔

مزید یہ کہ ان واحدوں میں اور ان علاقوں میں اقلیتوں کے لیے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے مشورے سے بقدر ضرورت موثر اور واجب التعمیل تحفظات معین طور پر دستور کے اندر مہیا کیے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں حسب ضرورت موثر اور واجب التعمیل تحفظات ان کے اور دوسری اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دوسرے حقوق و مفادات کے لیے ان کے مشورے سے معین طور پر دستور کے اندر شامل کیے جائیں۔"

قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر صدارت ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لاہور منٹو پارک میں ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن کے لیے منظور ہونے والی قرار داد لاہور بعد ازاں قرارداد پاکستان کے نام سے مقبول ہوئی۔ یہ قرارداد مسلمانان پاک وہند کا دو قومی نظریے پریقین کاتاریخی اظہار تھی۔ قرارداد پاکستان شیر بنگال مولوی فضل حق نے پیش کی تھی۔ اس قرارداد کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کیا۔ 

اس کی تائید میں خان اورنگ زیب خان، حاجی عبداللہ ہارون، بیگم مولانا محمد علی جوہر، آئی آئی چندریگر، مولانا عبدالحامد بدایونی اور دوسرے مسلم اکابر نے تقاریر کیں۔ بیگم محمد علی جوہر نے تقریر میں قرارداد کوپہلی بارقرارداد پاکستان کہا۔ یہ قرارداد پاکستان کی نظریاتی بنیاد بن گئی اورصرف سات برس کے عرصہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کرہ ارض پرحقیقت بن کرسامنےآگیا۔

برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1937ء میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعویٰ کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔ 

ان انتخابات میں کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔ پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کی جیت ہوئی تھی۔

غرض ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلم لیگ برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس دوران میں کانگریس نے اپنے اقتدار میں کئی ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کر دیا۔ 

کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی۔ اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بنا پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علاحدہ مملکتیں ہوں۔

دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ 

قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔

مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔ 

اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علاحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندہی 7 اپریل، 1946ء دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چودھری خلیق الزماں اور ابو الحسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قرارداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں صوبہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان ۔ 1946ء کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی اور یو پی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں نے اس کی تائید کی تھی۔

قرارداد پاکستان کی منظوری کے موقع پر ہونے والی تائیدی تقاریر اور خطابات اس وژن کا اظہار ہیں جو مسلمانان برصغیر کو ایک الگ وطن کی منزل تک لے آیا تھا۔ قائد اعظم نے اپنے خطاب میں گاندھی، راج گوپال اچاریہ ، ڈاکٹر راجندر پرشاد اور لالہ لاجپت رائے کے بیانات کا تجزیہ کرتے ہوئے کانگریس کی قیادت کو واضح پیغام دیا کہ اب مسلمانان ہند کی منزل کیا ہے۔ 

لالہ لاجپت رائے کے اس بیان کو قائد اعظم نے اپنی تقریر میں بیان کیا کہ ہندو برصغیر کے سات کروڑ مسلمانوں سے خوفزدہ نہیں ہیں بلکہ اس بات سے خوفزدہ ہیں یہ مسلمان کہیں افغانستان یا ایران کے مسلمانوں سے مل کر ان پر حملہ آور نہ ہوں۔ اور یہ کہ ہندووں اور مسلمانوں کے اتحاد میں بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ مسلمان قرآن اور حدیث کو کبھی ترک نہیں کریں گے اور قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد ممکن نہیں ۔ قائد اعظم نے ان بیانات کو غیر دانشمندانہ اور ہندووں کی مسلم دشمنی پر محمول کیا۔ اور کہا کہ مسلمان اقلیتوں کے مسئلے سے کبھی چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ بلوچسان سے قاضی محمد عیسی اور سندھ سے سر عبدللہ ہارون کے خطابات بھی اقلیتوں کے حقوق کا بڑا واضح بیان تھے۔

قرارداد پاکستان میں کیے گئے مسلمانان ہند کے مطالبات اور پھر اس موقع پر ہندوستان بھر کی نمائندہ مسلم قیادت کی طرف سے اظہار خیال مسلمانان ہند کے اس سیاسی شعور کی آواز تھی جس نے ہمارے آج کو تحفظ اور استحکام عطا کیا۔ 

وطن عزیز کی سالمیت کی جو اساس اس تاریخی سنگ میل سے میسر آتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی اس تہذیبی اور نظریاتی اساس کو رسوخ اور استحکام دیا جائے جو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تحریک کی قوت تھی۔ اور یہاں ہم وہ نظام اور حکومتی طریق کار وضع کریں جس سے ملک کے تمام طبقات اپنے حقوق کو محفوظ محسوس کریں اور عدل، انصاف اور ترقی کے برابر مواقع تک رسائی اس ملک کے ہر ہر شہری کو میسر ہو۔

تازہ ترین