• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرِ اقبالؒ کا تسلسل

حسنین عباس

علامہ اقبال شاعر مشرق، مفکر پاکستان اور پاکستان کے قومی شاعر ہیں۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کی اور ان کو ولولہ تازہ دیا۔ انہوں نے برصغیر کے حالات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ ہندوستان چھوٹا ایشیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان ایک براعظم ہے جس میں مختلف نسلوں، مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف مذاہب کے پیروکار آباد ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ بالکل مبنی بر حق ہے کہ ہندوستان کے اندر ایک مسلم ہندوستان قائم کیا جائے۔

علامہ اقبال نے 1930ء میں الہ آباد میں ہونے والے مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کی اور اپنا تاریخی خطبہ دیا۔ اس خطبے میں انہوں نے واضح الفاظ میں قیامِ پاکستان کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے قابل عمل تجاویز بھی دیں۔ 

فکرِ اقبالؒ کا تسلسل
23مارچ 1940 کو لاہور میں منعقد ہونے والے تاریخی جلسے کے موقع پر برصغیر کے مسلمان زعما کا قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ گروپ فوٹو

آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے قومی مطالبات کی تائید کرتے ہوئے حضرت علامہ نے فرمایا: ’’ذاتی طور پر میں ان مطالبات پر مزید یہ کہوں گا کہ میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان کو مدغم کر کے ایک واحد ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک مضبوط شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی آخری منزل ایک خود مختار حکومت ہی ہے خواہ یہ حکومت برطانیہ کے تحت بنے یا حکومت برطانیہ سے الگ ہو‘‘۔

اسی خطبہ میں آپ نے مزید فرمایا کہ اگر ہم ہندوستان کی آئندہ حکومت کے لیے کسی مستقل دستور کی بنیاد رکھنا چاہیے ہیں تو ہندوستان کے جغرافیائی، نسلی، لسانی اور عقائد و معاشرت کے اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی آزاد ریاستیں قائم کر دیں جو زبان، نسل، تاریخ، مذہب اور اقتصادی مفاد کے اشتراک پر مبنی ہوں … اگر صوبوں کی تقسیم کسی ایسے اصول کے تحت عمل میں آ جائے کہ ہر صوبے کے اندر تقریباً ایک ہی طرح کی قومیں بستی ہوں اور ان کی نسل، ان کی زبان، ان کا مذہب اور ان کی تہذیب و تمدن ایک ہوں تو مسلمانوں کو مخلوط انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

فکر اقبال کی روشنی میں مسلمانان ہند نے اپنی بقا کی جنگ جاری رکھی اور 1940ء میں منٹو پارک میں منعقدہ مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس میں قرار داد لاہور جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے، منظور کی۔ یہ قراردار فکر اقبال ہی کا ایک تسلسل ہے۔ 

یہ اجلاس پاکستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اجلاس سے چار روز قبل علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کی پریڈ پرپولیس نے فائرنگ کر کے 35 کارکنوں کو شہید کر دیا۔ ان حالات میں مسلم لیگ کی قیادت نے اس اجلاس کو ملتوی کرنے پر غور شروع کر دیا، لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے اس اجلاس کو مقررہ وقت پر ہی منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ مسلم لیگ کا یہ اجلاس اپنے وقت پر ہی ہو گا اور اس میں تاریخی فیصلے کیے جائیں گے۔

22 سے 24 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں سہ روزہ سالانہ اجلاس لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں منعقد ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس اجلاس میں برصغیر کے مختلف حصوں سے کم و بیش ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی تھی۔

مسلم لیگ کے اس اجلاس میں قرار داد لاہور منظور کی گئی۔ اس قرارداد کا متن پانچ پیراگراف پر مشتمل تھا۔ یہ مسودہ سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا جس میں بعدازاں ترمیم کر دی گئی۔ شیر بنگال مولوی فضل حق نے یہ قرار داد پیش کی۔ جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ ہی مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ 

اس قرار داد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں اور ان میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔

قرار داد پاکستان فکر اقبال کا ہی تسلسل ہے کیونکہ اقبال نے مسلمانان ہند کو شعور دیا کہ ان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ اپنا الگ وطن حاصل کریں اور قرارداد پاکستان میں مسلمانوں نے اسی فکر کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔ 

قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد ایک روز قائد اعظم نے اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن سید سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’آج اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسا ہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے‘‘۔ 

تازہ ترین