• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیلتھ اینڈ فٹنس :پولیو کا خطرہ ابھی ٹَلا نہیں

پاکستان کا شمار دنیا کے اُن تین مُمالک میں ہوتا ہے، جہاں آج بھی بچّے پولیو کی وجہ سے عُمر بھر کے لیے معذور ہوجاتے ہیں اور پھر ایسے بچّے نہ صرف اپنے خاندان، بلکہ پورے معاشرے پر بوجھ بھی تصوّر کیے جاتے ہیں۔ 

اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا مؤقف ہے کہ’’ عالمی ادارۂ صحت کی سفارشات کی روشنی میں کسی بھی مُلک کا صحت کا بجٹ، قومی بجٹ کا چھے فی صد ہونا چاہیے، لیکن پاکستان میں یہ ہمیشہ ایک فی صد سے بھی کم رہا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ عوام کو طبّی سہولتوں کی فراہمی میں بہتری آسکی اور نہ ہی پولیو جیسی خطرناک بیماریوں کا خاتمہ ہوسکا۔‘‘ پولیو دراصل ایک وائرس سے ہونے والی ایک بیماری ہے، جو متاثرہ شخص کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں فالج، مستقل معذوری یا پھر موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ 

اس مرض کو1908 ء میں آسٹریلین ڈاکٹرز، کارل لینڈ سٹینر اور پوپر نے دریافت کیا تھا، جسے تین اقسام ٹائپ ون، ٹائپ ٹو اور ٹائپ تِھری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ 

اس بیماری نے 1916ء میں امریکا میں وبا کی شکل اختیار کی، جس کے نتیجے میں چھے ہزار افراد ہلاک ہوگئے، جب کہ 27ہزار معذور ہوئے۔ 

دوسری بار،1952 ء میں امریکا ہی میں یہ بیماری پھیلی، جس سے 58ہزار افراد معذور ہوئے۔ یہ وائرس، خوراک یا پانی کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے، جس کی علامات میں تیز بخار، سَر درد، گردن کی سختی، قے، ہاتھوں اور پائوں میں درد وغیرہ شامل ہیں۔ 

ایک سے دوسرے فرد کو منتقل ہونے والی اس مُہلک بیماری سے زیادہ تر پانچ سال سے کم عُمر بچّے متاثر ہوتے ہیں اور ایک بار بیماری لگنے کی صُورت میں، اس کا کوئی علاج بھی نہیں ، اسی لیے اسے ایک لاعلاج مرض بھی کہا جاتا ہے، تاہم ماہرین کے مطابق چیچک کی طرح اس بیماری کا بھی مکمل خاتمہ ممکن ہے۔

1955 ء میں پولیو سے بچائو کے لیے آئی پی وی (ان ایکٹیویٹڈ پولیو وائرس ویکسین)دریافت کی گئی اور اس مرض سے بچاؤ کے لیے بچّوں کو انجیکشن لگانے شروع کیے گئے، جس سے دنیا میں ایک ہل چل سی مچ گئی، تاہم 1961ء میں او پی وی یعنی اورل پولیو ویکسین متعارف کروائی گئی، جس سے خوف میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ ابتدا میں پولیو ٹائپ ون، ٹو اور تِھری سے بچائو کے لیے بچّوں کو مختلف اوقات میں ویکسینز پلائی جاتی تھیں، لیکن 1963ء میں ان تینوں وائرس کے خلاف دو قطروں پر مشتمل خوراک تیار کی گئی اور اب وہی بچّوں کو پلائی جاتی ہے۔ 

1988ء میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے 2000ء تک پولیو کے مکمل خاتمے کی قرارداد پاس کی اور’’ global polio eradication initiative‘‘ کے نام سے مہم شروع کی، کیوں کہ اُسی سال دنیا بھر میں پولیو کے 3لاکھ50 ہزار کیسز کی تصدیق کی گئی تھی، تاہم اس بھرپور مہم سے کیسز کی تعداد میں99 فی صد تک کمی آگئی۔ 1991ء میں امریکا میں’’ وائلڈ پولیو وائرس‘‘ کا آخری کیس رپورٹ ہوا، جب کہ 1994ء میں ڈبلیو ایچ او ریجن آف امریکا کو پولیو فِری قرار دے دیا گیا۔

 2000ء میں ویسٹرن پیسیفک ریجن،2002 ء میں یورپین ریجن، جب کہ2014 ء میں سائوتھ ایسٹ ایشیا ریجن کو پولیو فِری قرار دیا گیا۔ پولیو ٹائپ ٹو کو 1999ء میں ختم کردیا گیا، جب کہ ٹائپ تِھری کا آخری کیس2012 ء میں رپورٹ ہوا تھا، تاہم ٹائپ ون سے اب بھی تین مُمالک میں بچّے متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں1994ء میں سب سے زیادہ، دوہزار635 کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ 2012ء میں 58، 2013ء میں 93،2014 ءمیں 306، 2015 ء میں 54 ، 2016ء میں20 اور2017ء میں 30 کیسز سامنے آئے۔ پولیو سے متاثرہ مُلک، نائیجیریا میں پچھلے سال کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، جب کہ افغانستان سے مسلسل پولیو کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ بھارت کو 2011ء میں پولیو فِری قرار دیا گیا تھا۔

خیبر پختون خوا میں پولیو کے خاتمے کے لیے برسرِ پیکار، ایمرجینسی آپریشن سینٹر(ای او سی) کے کوآرڈی نیٹر، عاطف الرحمان، یونیسیف ٹیم لیڈر، ڈاکٹر جوہر خان، نیشنل پروفیشنل آفیسر پی پی ای او خیبر پختون خوا، ڈاکٹر علائوالدّین اور ٹیکنیکل فوکل پرسن بی ایم جی ایف، ڈاکٹر امتیاز علی شاہ نے’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کو بتایا کہ’’ پولیو دس متعدّی بیماریوں میں سے ایک ہے، جس کے نتیجے میں بچّہ پوری زندگی کے لیے معذور ہو جاتا ہے۔ 

وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد متاثرہ شخص کی انتڑیوں میں پرورش پاتا ہے، جو چھینک اور کھانسی کے ساتھ متاثرہ شخص کے پاخانے کے ذریعے بھی پھیلتا ہے۔ اگر متاثرہ شخص، بیت الخلاء سے ہاتھ دھوئے بغیر کسی چیز کو چُھو لے اور اُسے کوئی بچّہ اپنے منہ میں ڈال لے، تو اس سے بھی اُسے پولیو ہوسکتا ہے۔ اس بیماری کے باعث ٹانگ پَتلی اور چھوٹی رہ جاتی ہے۔ 

پولیو سے بچائو کی ویکسین، وائرس کو کم زور کرتی اور بچّے کی قوّتِ مدافعت بڑھاتی ہے، جس سے وائرس بچّے پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ 2010ء میں افغانستان، نائیجیریا اور پاکستان کے علاوہ باقی دنیا سے پولیو کا خاتمہ ہوگیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ بیش تر مُمالک نے انسدادِ پولیو ویکسین تیار کرنا چھوڑ دی ہے، کیوں کہ ترقّی یافتہ مُمالک میں اس مرض کا اب کوئی وجود نہیں رہا، لہٰذا مستقبل میں ویکسین کی دست یابی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پولیو ویکسین، عالمی ادارۂ صحت سے منظور شدہ ہے اور این ایچ آئی میں اس کا باقاعدہ ٹیسٹ بھی ہوتا ہے۔ 

یہ ویکسین بیلجیئم، انڈونیشیا اور چند دیگر مُمالک میں تیار کی جاتی ہے۔ پاکستان میں پہلی بار سابق وزیرِ اعظم، بے نظیر بھٹّو نے اپنی بیٹی کو قطرے پلا کر انسدادِ پولیو مہم کا آغاز کیا تھا اور اس کے بعد، پولیو کیسز کی تعداد میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی۔ ویکسین کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے صوبے میں جاری حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام کا باقاعدہ حصّہ بنایا گیا۔

2005 ء میں پولیو کیسز کی تعداد25 تک رہ گئی تھی، تاہم بدامنی کی لہر کی وجہ سے انسدادِ پولیو مہمات پر بھی بُرا اثر پڑا اور پولیو ٹیمز کی کئی علاقوں تک رسائی مشکل ہوگئی۔ 2014ء میں پاکستان میں پولیو کے306 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں68 کا تعلق خیبر پختون خوا سے تھا۔

2012ء میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم کی ہدایت پر پولیو کے خلاف ایمرجینسی نافذ کرکے’’ نیشنل ایمرجینسی پلان‘‘ تیار کیا گیا، جس کے تحت فوکل پرسن کی تعیّناتی عمل میں لائی گئی تاکہ پولیو مہمات کی بہتر اور مؤثر طریقے سے نگرانی کی جاسکے اور اس کے خاتمے کے لیے مشترکہ طور پر کوششیں کی جاسکیں۔‘‘

ان ماہرین کے مطابق’’ بچّوں کو وائرس سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ جب تک ماحول میں وائرس موجود ہو، بچّوں کو بار بار قطرے پلائے جائیں، جس کے کوئی مضر اثرات نہیں۔ حفاظتی قطروں کے حوالے سے غلط تصوّر اور پروپیگنڈا مرض کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 

ہیلتھ اینڈ فٹنس :پولیو کا خطرہ ابھی ٹَلا نہیں

بعض لوگوں کا یہ خیال کہ کسی مغربی ایجنڈے کے تحت ویکسین کے ذریعے اُن کی نسل کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، بے بنیاد ہے۔ اس پروپیگنڈے کی وجہ سے بعض والدین اپنے بچّوں کو قطرے پلانے سے کتراتے ہیں، جب کہ بعض اوقات سوشل میڈیا پر بھی اس کے خلاف مَن گھڑت باتیں کی جاتی ہیں، جن میں کوئی حقیقت نہیں۔ 

ویکسین میں کسی قسم کے مضر اجزاء یا ہارمونز موجود نہیں اور بچّوں کو قطرے پلانے سے قبل ویکسین کو باقاعدہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ( این آئی ایچ) اسلام آباد میں ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ یہ لیبارٹری ڈبلیو ایچ او سے تصدیق شدہ ہے، جہاں پاکستان اور افغانستان سے پولیو کے کیسز کا بھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ نیز، اس لیبارٹری کا دنیا کی پانچ بہترین لیبارٹریز میں شمار ہوتا ہے اور اس کے نتائج سو فی صد درست ہوتے ہیں۔ اگر ویکسین میں مضرِ صحت اجزاء شامل کیے جاتے کہ جس سے بانجھ پن کا خطرہ ہوتا، تو آج پاکستان کی آبادی اتنی تیزی سے نہ بڑھتی؟‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ پشاورمیں پچھلے دوسال میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا، تاہم ماحولیاتی نمونوں کے تجزیے کے بعد ماحول میں وائرس کی تصدیق کی گئی، جس سے قطرے نہ پینے والے بچّوں کو وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ 

والدین پولیو کے خاتمے کے پروگرام کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ جہاں ماحول میں وائرس موجود ہو، وہاں مہم چلانا ضروری ہے، لہٰذا’’ صحت محافظ‘‘ یعنی پولیو ٹیمز کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔ پولیو وائرس کے نمونے، جن علاقوں سے لیے جاتے ہیں، وہاں خصوصی طور پر والدین اپنے بچّوں کو قطرے پلانے پر توجّہ دیں۔ ’’ نیشنل ایمونائزیشن ڈیز‘‘ کے تحت تمام صوبوں اور فاٹا میں بہ یک وقت انسدادِ پولیو مہم چلائی جاتی ہے۔ 

اسی طرح جن اضلاع میں وائرس کی موجودگی کا خطرہ ہو، وہاں بھی خصوصی توجّہ دی جاتی ہے تاکہ وائرس کی منتقلی کا تدارک ہوسکے اور بچّے محفوظ رہیں۔ عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق، پولیو خاتمے کے قریب ہے اور اسے دنیا کے دیگر مُمالک کی طرح پاکستان میں بھی جڑ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے عالمی برادری کی جانب سے مرض کے خاتمے کے لیے دبائو ڈالا جارہا ہے۔ پھر یہ بھی کہ اگر اس بیماری کو ختم کر دیا جائے، تو اس سے مُلک پر مالی بوجھ میں بھی کمی آئے گی اور وسائل کو دیگر بیماریوں کے خاتمے پر لگایا جاسکے گا۔ 

پولیو ویکسین کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ سال قبل، پولیو کے کیسز میں اضافے کے باعث پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ نیز، حج یا عُمرے کے لیے جانے والے پاکستانیوں کی ائیرپورٹ پر باقاعدہ ویکسی نیشن کی جاتی ہے تاکہ یہ وائرس سعودی عرب یا کسی دوسرے مُلک منتقل نہ ہو جائے۔ 

والدین کے انکار کی وجہ سے اب بھی کئی بچّے حفاظتی قطروں سے محروم ہیں، جب تک ایک بھی بچّہ ویکسی نیشن سے محروم ہے اور ماحول میں وائرس بھی موجود ہے، تو اس سے پوری دنیا میں بچّے غیر محفوظ رہیں گے۔ اس ضمن میں محکمۂ صحت کی جانب سے بھی ایسے والدین کا، جو اپنے بچّوں کو قطرے پلانے سے انکاری ہوں، اعتماد بحال کرنے کے لیے اُن کے ساتھ باقاعدہ سیشنز منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ اُن میں پولیو سے متعلق آگاہی پیدا کی جاسکے۔ ‘‘

پاکستان میں پولیو وائرس کی موجودگی کی کئی وجوہ ہیں، جن میں تعلیم و آگاہی کی کمی، بڑھتی ہوئی آبادی، صفائی کی ناقص صُورتِ حال، مختلف علاقوں، خصوصاً سرحدی علاقوں میں تمام بچّوں تک رسائی میں مشکلات وغیرہ شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ اپنے بچّوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے انکار کی ایک وجہ ویکسین کے حوالے سے پروپیگنڈا بھی ہے، حالاں کہ دنیا بھر کی بڑی اسلامی تنظیموں، علمائے کرام اور مذہبی رہنمائوں نے اسے تمام بچّوں کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ 

ان علماء میں سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم، مجلس کاؤنسل آف علماء انڈونیشیا، دارالعلوم دیوبند، او آئی سی، بیت المقدس کے امام اور پاکستان میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما شامل ہیں۔ پھر یہ بھی کہ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور سیکوریٹی کے مسائل کی وجہ سے خطّے میں پولیو کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ 

وہاں کے صوبے ننگرہار اور دیگر سرحدی علاقوں میں بچّوں تک رسائی اور اُنہیں قطرے پلانا اب بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ان علاقوں سے فاٹا اور خیبر پختون خوا منتقل ہونے والے لوگ ،پولیو وائرس بھی اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔ افغانستان سے خیبر پختون خوا اور فاٹا میں پولیو وائرس کی منتقلی کی روک تھام کے لیے ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کے احکامات پر ناردرن کوریڈار ایکشن پلان تیار کیا گیا، جس کے تحت ہم سایہ مُلک کے ساتھ سرحدی علاقوں میں بچّوں تک رسائی کے لیے ہم آہنگی اور روابط کو فروغ دینے پر توجّہ دی جارہی ہے اور ایک حکمتِ عملی کے تحت افغانستان، خیبر پختون خوا اور فاٹا میں ایک ساتھ انسدادِ پولیو مہم چلائی جارہی ہے تاکہ مرض کا تدارک ہوسکے۔ 

اسی طرح نیشنل ایمرجینسی پلان پر بھی مِن وعن عمل کیا جارہا ہے۔ لو ٹرانسمیشن سیزن میں انسدادِ پولیو مہم کو مؤثر بنانے کے علاوہ، افغان مہاجرین کے کیمپس، خانہ بدوش اور بھیک مانگنے والے بچّوں پر خصوصی توجّہ مرکوز کی جاتی ہے، کیوں کہ ان بچّوں کا اکثر قطروں سے محروم رہنے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس مقصد کے لیے کیمپس میں مقیم بچّوں کے ٹھکانوں کا باقاعدہ دَورہ کیا جاتا ہے۔ 

اکتوبر سے جنوری تک کے دَوران، وائرس کی منتقلی اور افزائش کم ہوجاتی ہے اور یہی وائرس کو ختم کرنے کا مناسب وقت ہے۔ پشاور، خیبرایجینسی، شمالی وزیرستان اور ایف آر بنّوں مُلک کے ایسے علاقوں میں شامل ہیں، جہاں پولیو وائرس موجود ہے، جو دیگر علاقوں کو بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ مانیٹرنگ کے بغیر مہمات کا معیار بہتر نہیں بنایا جاسکتا۔ خیبر پختون خوا میں پو لیو سے بچائو کی ویکسین کے ذریعے 57 لاکھ بچّوں کو معذوری سے بچایاجاسکتا ہے۔‘‘

ای او سی کوآرڈی نیٹر، عاطف الرحمان کے مطابق،’’ ایمرجینسی آپریشن سینٹرز کے پاس تمام گھروں اور بچّوں کے ڈیٹا کے علاوہ، ایک مائیکرو پلان بھی موجود ہے، جس کے ذریعے وہ ہر بچّے اور گھر تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیو کے خاتمے میں نہ صرف ڈونرز بلکہ یو اے ای اور دیگر اسلامی مُمالک بھی ہمارے ساتھ تعاون کررہے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف مغربی مُمالک ہی نہیں، بلکہ اسلامی مُمالک بھی اس مرض کے خاتمے پر توجّہ دے رہے ہیں۔ 

پولیو کے خلاف ویکسین کی افادیت چار سے چھے ہفتے تک ہوتی ہے، لہٰذا اسے بار بار پلانا ضروری ہے تاکہ ماحول میں موجود وائرس بچّے کو نقصان نہ پہنچائے، جب کہ او پی وی اور آئی پی وی سے بچّے کی قوّتِ مدافعت مزید بڑھ جاتی ہے، جس سے بچّہ مکمل طور پر محفوظ ہو جاتا ہے۔ پشاور، بنّوں، کوہاٹ، مردان، نوشہرہ، چارسدّہ اور دیگر مقامات سے نکاسیٔ آب کے نالوں سے ہر ماہ نمونے لیے جاتے ہیں تاکہ وائرس کی تشخیص ہوسکے۔‘‘ خیبر پختون خوا سے پولیو کے خاتمے کے حوالے سے عاطف الرحمان کا کہنا ہے کہ’’ جب تک مسلسل تین سال تک خطّے میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آتا اور نکاسیٔ آب یا ماحول سے لیے گئے نمونوں میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوتی، صوبے کو’’ پولیو فِری‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 

بچّوں کو وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ایک ہی وقت میں تمام بچّوں کو قطرے پلائے جائیں، تاہم بعض اوقات والدین کے عدم تعاون کی وجہ سے بعض بچّے قطروں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا، مرض کے خاتمے میں والدین کے ساتھ، تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘

تازہ ترین