• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظر

عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظر

لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظرہیں۔

ماہرین کے اندازے کے مطابق ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً 15 سے 20 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے، اعلیٰ عدالتوں میں اس وقت ججوں کی کل تعداد 146 ہے جبکہ کل اسامیوں کی تعداد 167 ہے۔

لاء اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کی تحقیق کے مطابق جنوری 2018 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اس وقت 38000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں اس وقت موجود کیسز کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ ہے جو کہ 150000 سے اوپر ہے، دوسرے نمبر پر سندھ ہائی کورٹ ہے جہاں 94000 کیسز ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16000 ،پشاور ہائی کورٹ میں 30000 جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں صرف 6000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

پاکستان میں ہر دس لاکھ آبادی کے لیے 12 جج مختص ہیں جبکہ انڈیا میں یہ تعداد 18 ، برطانیہ میں 51، کینیڈا میں 75 اور امریکا میں 107 ہے۔

برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق تاخیر کی بڑی وجہ ججوں کی تعداد کی کمی اور ججز پر کام کا دباؤ ہے، ایک چھوٹے کورٹ کے جج کو دن میں 150 سے 200 کیسز سے نمٹنا ہوتا ہے جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے جبکہ حالیہ برسوں میں وکلا کی جانب سے ہڑتال کا رجحان بھی مقدموں کے فیصلوں میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔

صوبہ پنجاب میں دسمبر 2017 کے اختتام پر تقریباً دس لاکھ سول اور فیملی کیسز کا فیصلہ ہونا باقی تھا اور انھیں نمٹانے کے لیے صرف 938 ججز موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک جج 1000 سے زیادہ کیسز کو دیکھ رہا ہے۔

ایل اینڈ جے سی پی کی سفارشات کے مطابق اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سول اور فیملی کیسز کے لیے ججوں کی تعداد کو بڑھا کر تقریباً 2000 کرنا ہوگا تاکہ ایک جج پر 500 مقدمات کی ذمہ داری ہو۔

تازہ ترین