• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی تحریر …شجیہ نیازی
ممکنات درج ذیل ہوسکتی ہیں۔ نواز شریف کا بیانیہ الیکشن میں انہیں دو تہائی اکثریت دلوا دے۔ کچھ دیر کے لیے شہباز شریف وزیراعظم بن جائیں پھر آخر کار جیسے بھی سہی نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں۔ وہ پھر اس مملکت خداداد کے طاقت ور ترین وزیراعظم ہوں گے۔تمام ادارے ان کے ماتحت ہوں گے۔ رسمی ماتحت نہیں ایسے ماتحت جیسے پنجاب پولیس شہباز شریف کے ماتحت ہے۔ کابینہ میں درج ذیل لوگوں کے پاس بڑی وزارتیں ہوں گی۔ اسحاق ڈار،خواجہ آصف ،خواجہ سعدرفیق، طلال چودھری، احسن اقبال، مریم اورنگزیب، دانیال عزیز، امیر مقام، طارق فضل چودھری، مشاہد اللہ خان، پرویز رشید، نہال ہاشمی اور عابد شیر علی۔ موٹر ویز کا جال ہو گا، پی آئی اے، ریلوے ،اسٹیل مل اور دیگر سفید ہاتھی پرائیویٹائز ہو جائیں گے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اچھے ہو جائیں گے (اگر بھارت یہ چاہے تو)۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہونے کے متعدد اعلانات ہوں گے۔ نوجوانوں کو قرضے دیئے جائیں گے۔نواز شریف اسمبلی میں محض مخصوص مواقع پر ہی ایک آدھی بار آئیں گے۔ چنیوٹ سے سو نا نکلنے کے ذخائر کا اعلان ہو گا۔ لاہور میں فضائی ٹیکسی سروس شروع ہو گی۔ میٹرو اورنج ٹرین ملتان اور پنڈی میں بھی چلے گی۔ نواز شریف کی تصویر والے کارڈ سب کو مل جائیں گے۔ دوسری صورت نواز شریف کو جیل جانا یا جلا وطن ہونا پڑ جائے اور ن لیگ سادہ اکثریت سے حکومت بنا لے تو چودھری نثار علی خان، رانا ثناءاللہ، ناصر اقبال بسال اچھی وزارتوں پر ہوں گے۔ زیادہ تر وزارتیں شہباز شریف کے اپنے پاس ہوں گی۔ اب شہباز شریف کا ہیلی کاپٹر صرف پنجاب نہیں بلکہ پورے پاکستان میںگھومے گا۔ کوئٹہ،حیدرآباد، ڈیرہ غازی خان میں بھی میٹرو بس سروس چلے گی۔ احد چیمہ فواد حسن فواد کی جگہ لے لیں گے۔ اوپر والے دونوں ممکنات میں وزیر اعلیٰ پنجاب کون ہو گا ؟مریم نواز شریف یا حمزہ شہباز شریف؟ یہ بلین ڈالر کا سوال ہے۔تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں دس سے پندرہ مضبوط انتخابی گھوڑے ساتھ ملا کر اتنی نشستیں نکال لے اور مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم، اے این پی اور دیگر آزاد امیدواروں کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنا لے تو وزیراعظم خودآصف زرداری یا فریال تالپور ہوں گی۔ سلیم مانڈوی والا، شرجیل میمن، خورشید شاہ، اعتزاز احسن، راجہ پرویز اشرف اورشیری رحمان سمیت دیگر لوگ اہم وزارتوں پر ہوں گے۔ یہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ یہ ہی اس کا سب سے بڑا کام ہو گا۔ایک اور ممکن امر یہ ہے کہ الیکشن ہو ہی نہ اور کچھ سال کے لئے قومی حکومت بنا دی جائے۔ یہ حکومت کیا کرے گی۔ احتساب کی ناکام کوشش، اصلاحات کی ناکام کوشش، اپنے دور میں اضافے کی کامیاب کوشش، خدا نخواستہ کسی کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ نہ ہو تو یہ ہی چند ایک ممکنات ہیں جو آئندہ ہو سکتی ہیں۔ مارشل لا آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکا۔ فوج اس طرف آنا بھی نہیں چاہے گی۔ اب پوری قوم اپنے اپنے کاموں پر توجہ دے۔ ملکی حالات ہمیشہ سے نازک موڑ پر ہیں۔ انہوں نے نازک موڑ پر ہی رہنا ہے جب تک ہم ان حکومتوں کے مسائل کے حل سوچنے کے بجائے اپنے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتے۔ پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ نے شہر کے درمیان میں ایک بہت ہی بڑا برتن رکھوا دیا اور اعلان کیا کہ رات کو ہر آدمی اس میں ایک ایک گلاس دودھ ڈال دے۔ صبح دیکھا گیا تو برتن پانی سے بھرا ہو ا تھا سب نے اسی خیال میں پانی کے گلاس ڈالے کہ ان کے ایک گلاس پانی سے اتنے دودھ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آ پ تاجر ہیں تو ملاوٹ نہ کریں،ڈرائیور ہیں تو گاڑی زیبرا کراسنگ سے پیچھے کھڑی کریں، استاد ہیں تو طلباء کو پورا وقت دیں، پولیس والے ہیں تو خدمت کو فرض سمجھیں، طالب علم ہیں تو حصول تعلیم کو ترجیح ہو، آپ یہ سب اور مزید سب کچھ بہت اچھی طرح کریں تو برتن دودھ سے بھرا ہو ا ہو گا۔ پانچ سال بعد ایک دفعہ ووٹ ڈالیں اور سوچ سمجھ کر ڈالیں تو ہر سال مارچ سیاسی طور پر اہم نہیں ہو گا۔ ملک نازک موڑ سے بھی تھو ڑا آگے نکل جائے گا۔
تازہ ترین